• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہریانہ: ہار جیت اور کارکردگی

Updated: October 10, 2024, 2:12 PM IST | Mumbai

اتنا ہی نہیں، کم و بیش پانچ سیٹیں ایسی ہیں جہاں کانگریس جتنے ووٹوں سے ہاری ہے اُس سے کہیں زیادہ ووٹ عام آدمی پارٹی کے اُمیدوار کو ملے ہیں ۔ یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے اور وہ وہی ہے جس کا ذکر اوپر آیا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ہار جیت کا ضابطہ یہ ہے کہ جس کسی کو جس کسی درجے میں سبقت حاصل ہو وہ فاتح کہلاتا ہے اور جس کسی کو جس کسی درجے میں سبقت حاصل نہ ہو وہ مفتوح کہلاتا ہے۔ یہ ضابطہ ہر میدان میں نافذ العمل ہے اور انتخابات اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ ایک ووٹ سے ہارنے والا بھی ہارا ہوا کہلاتا ہے اور ایک ووٹ سے جیتنے والا بھی جیتا ہوا کہلاتا ہے۔ اسی ضابطہ کے تحت ہریانہ میں کانگریس کی کارکردگی کو موضوع بحث بنانے اور اس بہانے اُس کی کارکردگی کو کم آنکنے کی کوشش کی جارہی ہے اس لئے ہریانہ کی فاتح بی جے پی کو موقع مل گیا ہے کہ لوک سبھا میں کم سیٹیں حاصل کرنے اور اکثریت سے دور رہ جانے کے نقصان کی تلافی کرسکے۔ ان نتائج سے اُسے بڑی توانائی مل گئی ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ بی جے پی کیلئے ہریانہ کی وجہ سے مہاراشٹر آسان ہوگیا ہے جبکہ اس خیال سے سو فیصد اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ ہر ریاستی الیکشن کے موضوعات، سیاسی و انتخابی مساوات اور ووٹروں کا رجحان مختلف ہوتا ہے ورنہ پچھلے سال ایم پی اور راجستھان جیتنے والی بی جے پی تلنگانہ نہ ہارتی۔ ویسے ہریانہ میں کانگریس کی کارکردگی خراب نہیں ہے۔ اس کو بی جے پی کے برابر ووٹ ملے ہیں ۔ اسے ملنے والی سیٹیں سابقہ الیکشن کی سیٹوں سے زیادہ ہیں، تمام ۹۰؍ حلقوں میں جو اُمیدوار (مامن خان، نوح) سب سے بڑے فرق (۹۸۴۴۱) سے جیتا وہ کانگریس کا اُمیدوار ہے اور جو سب سے کم مارجن (صرف ۳۲؍ ووٹ) سے جیتا وہ بی جے پی کا اُمیدوار ( دیویندر چتر بھج، اونچا کلاں ) ہے۔ 
 اتنا ہی نہیں، کم و بیش پانچ سیٹیں ایسی ہیں جہاں کانگریس جتنے ووٹوں سے ہاری ہے اُس سے کہیں زیادہ ووٹ عام آدمی پارٹی کے اُمیدوار کو ملے ہیں ۔ یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے اور وہ وہی ہے جس کا ذکر اوپر آیا ہے۔ دیویندر چتر بھج۳۲؍ ووٹوں سے ہرگز نہ جیتتے اگر اس حلقے میں عام آدمی پارٹی کے اُمیدوار نے ۴۶؍ ہزار سے زائد ووٹ نہ حاصل کئے ہوتے۔ 
مذکورہ پانچ سیٹوں کے علاوہ کم وبیش چودہ سیٹیں ایسی ہیں جہاں کانگریس جتنے ووٹوں سے ہاری ہے اُس سے زیادہ ووٹ تیسرا مقام پانے والے اُمیدوار کو ملے ہیں ۔ مہندر گڑھ حلقۂ اسمبلی میں کانگریس کا اُمیدوار ڈھائی ہزار ووٹوں سے ہار گیا جبکہ آزاد اُمیدوار کو ۲۰؍ ہزار سے زیادہ ووٹ ملے۔ ایسی ایک نہیں ۱۴؍ سیٹیں ہیں ۔ پچھلے دو دِن سے لوگ کانگریس کو سخت سست کہہ رہے ہیں کہ وہ جیتی ہوئی بازی ہار گئی مگر کم لوگ ہیں جو بی جے پی اور کانگریس کی کارکردگی کا موازنہ کررہے ہیں ۔ 
جو پانچ سیٹیں ’’آپ‘‘ کے سبب ہاتھ نہیں لگیں اُن کیلئےکانگریس کو مور د ِ الزام ٹھہرانا غلط نہیں مگر آزاد اُمیدواروں کی وجہ سے حاصل نہ ہوپا نے والی چودہ سیٹوں کیلئے کس کو دوش دیا جائیگا؟ پانچ اور چودہ یعنی اُنیس سیٹیں کانگریس کی حاصل شدہ (۳۷) سیٹوں میں جوڑی جائیں تو حاصل جمع ۵۶؍ ہوگا۔ کانگریس ۵۶؍ سیٹیں حاصل کرلیتی تو؟ حقیقت یہ ہے کہ پارٹی پچھلے دس سال سےبالعموم اور گزشتہ دو دِن سے بالخصوص اس لئے معتوب ہے کہ اس کی معتوبیت ہی موجودہ سیاسی اقتدار کو مطلوب ہے۔ پارٹی کی ہار سے دلبرداشتہ اس کے ہمنوا بھی اسے میڈیا کے طے کردہ زاویئے سے دیکھ رہے ہیں اور اب اس مہم میں انڈیا اتحاد کی دیگر پارٹیاں شامل ہوگئی ہیں جن کا مقصددوسرا ہے مگر وہ بھی اسی لائن کو فالو کررہی ہیں ۔ جیت ہار کے ضابطہ کے تحت پارٹی یقیناً ہاری ہے مگر ناقص کارکردگی کے سبب نہیں ہاری ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK