۱۷؍رمضان المبارکام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے یوم وصال کی مناسبت سے۔
EPAPER
Updated: March 17, 2025, 2:32 PM IST | Abbas Mahmood Al Akkad | Mumbai
۱۷؍رمضان المبارکام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے یوم وصال کی مناسبت سے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسری ازواجِ مطہرات کی نسبت حضرت عائشہؓ سے یقیناً بہت زیادہ احادیث مروی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملتا تھا، البتہ جو امر حضرت عائشہؓ کو دوسری ازواج مطہرات سے ممتاز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ آپؓ کی احادیث سے حضورؐ کا سراپا اتنا واضح ہمارے سامنے آجاتا ہے اور آپؐ کے اخلاق و عادات اور معمولات کا ایسا بین نقشہ ہمارے سامنے کھنچ جاتا ہے کہ اس سے بہتر ممکن نہیں۔ ان احادیث کے لفظ لفظ سے اس گہری عقیدت، موانست اور قلبی تعلق کا پتہ ملتا ہے جو حضرت عائشہؓ کو حضورؐ سے بطور ایک مشفق خاوند اور رسول کے تھا۔ حضرت عائشہؓ، آپؐ کے ارشادات اور اعمال کو سطحی نظر سے نہیں دیکھتی تھیں بلکہ ان کی باریک بین اور دوررس نگاہ ایک ایک لفظ کے حقیقی مفہوم تک پہنچتی تھی۔ آپؐ کی باتوں سے جو مطالب حضرت عائشہؓ نکال لیتی تھیں وہ ہر کہ و مہ کے بس کی بات نہ تھی۔
رسول اللہ ﷺ سے عشق و محبت کا یہ بلند مقام حضرت عائشہؓ کو ایک دن میں حاصل نہیں ہوگیا بلکہ اس منزل تک پہنچنے میں ایک لمبا عرصہ لگا۔ نکاح کے وقت ان کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی۔ اس وقت ان میں نہ تو آپؐ کی باتیں سمجھنے کی کامل اہلیت موجود تھی اور نہ قرآن کریم کے حقائق اور غوامض (باریکیاں، گہری باتیں ) معلوم کرنے کا ملکہ، چنانچہ واقعۂ افک کا ذکر کرتے ہوئے وہ خود کہتی ہیں :
’’اس واقعہ کے وقت میں کم سن تھی اور مجھے زیادہ قرآن بھی نہ آتا تھا۔ ‘‘ یہی نہیں بلکہ ان کی بے خبری کا یہ عالم تھا کہ انہیں پیغمبروں کے نام بھی ٹھیک ٹھیک یاد نہ تھے، چنانچہ اسی واقعہ کے ضمن میں وہ خود بیان کرتی ہیں کہ جب حضورؐ نے مجھ سے اس بہتان کے متعلق دریافت فرمایا تھا تو میں نے اپنے ذہن میں حضرت یعقوبؑ کا نام لانا چاہا لیکن مجھے ان کا نام یاد نہ آیا۔ آخر میں نے کہا ’’میں بھی وہی کہتی ہوں جو حضرت یوسفؑ کے والد نے کہا تھا : (ترجمہ) ’’صبر کرنا ہی بہتر ہے اور جو کچھ آپ بیان کررہے ہیں اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی میری مدد فرمائے گا۔ ‘‘ (سورہ یوسف:۱۸)
تاہم بے خبری کی یہ حالت زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ حضورؐ کی توجہ اور تربیت نے آہستہ آہستہ رنگ لانا شروع کیا اور بالآخر آپؓ اس بوجھ کو اٹھانے کے پورے طور پر قابل ہوگئیں جسے اللہ تعالیٰ نے ام المومنین کی حیثیت سے آپ پر ڈالا تھا۔
رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے جتنا فائدہ حضرت عائشہؓ نے اٹھایا، شاید ہی کسی اور نے اٹھایا ہو۔ دینی، فقہی، علمی اور معاشرتی مسائل سے حیرت انگیز واقفیت کے باعث وہ مرجع خواص و عوام تھیں۔ جس شخص کو بھی کسی مسئلے کے سمجھنے میں دقت پیش آتی وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ہر طرح اپنی تسلی کرلیتا۔ ایک مرتبہ حضرت معاویہؓ نے انہیں لکھا کہ آپ مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔ آپؓ نے جواب میں لکھ بھیجا:
’’سلام علیک، میں نے رسولؐ اللہ کی زبان مبارک سے یہ حدیث سنی ہے کہ جس شخص نے لوگوں کو ناراض کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ لوگوں کی ناراضی کے باوجود خود اس کا کفیل ہوگا، لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے لوگوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سپرد کردے گا، وہ اس سے جو برتاؤ چاہیں کریں، اللہ تعالیٰ کو اس سے کچھ سروکار نہ ہوگا۔ ‘‘
ام المومنین ہونے کی حیثیت سے حضرت عائشہؓ کے ذمہ تبلیغ اور تعلیم کا جو فریضہ عائد کردیا گیا تھا انہوں نے اسے پوری طرح ادا کیا۔ احکام دین ہوں یا مسائل تطہیر، احکام صوم و صلوٰۃ ہوں یا معاشرتی مسائل، غرضیکہ جس کسی امر کے متعلق آپؓ سے استفسار کیا جاتا وہ اس حسن و خوبی کے ساتھ اس کا جواب دیتیں کہ مستفسر باطمینان واپس جاتا۔ بہت سے امور ایسے ہوتے ہیں کہ عورتیں انہیں زبان پر لاتے ہوئے ہچکچاتی ہیں، لیکن ام المومن حضرت عائشہؓ کو امت کی تعلیم و تربیت کا کام سونپا گیا تھا، اگر وہ اس فریضے سے پہلوتہی برتتیں اور اپنے دینی فرزندوں کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی سے کام لیتیں تو اس امانت میں خلل اندازی کی مرتکب ہوتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے سپرد کی گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان سے جس مسئلے کے متعلق بھی دریافت کیا جاتا وہ بلاتامل اس کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتیں۔
حضرت عائشہؓ نے عام بیویوں کی طرح زندگی گزاری، بلکہ تعلیم و تلقین کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا کر انہوں نے صحیح معنوں میں رسول اللہ ﷺ کی شریک ِ حیات ہونا ثابت کردیا۔ آپؐ کی پیش کردہ تعلیمات کو جس طرح آپؓ نے اپنے ذہن میں محفوظ کیا، اور کوئی نہ کرسکا اور آپؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد آپؐ کی چھوڑی ہوئی امانت، کتاب اللہ اور سنت نبوی، کو جس خوش اسلوبی سے حضرت عائشہؓ نے امت تک پہنچایا، دوسرے صحابہ میں اس کی نظیر ملنی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطیؒ رسالہ عین الاصابہ فیما الستدرکۃ السیدہ عائشہ علی الصحابہ میں لکھتے ہیں :
lمصنف (امام بدرالدین زرکشی) نے کتاب الاجابۃ میں اور حاکم نے مستدرک میں عروہ کی ایک روایت درج کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں :’’میں نے حلال و حرام کے مسائل، علوم و فنون، شعر اور طب میں حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کسی کو باخبر نہیں دیکھا۔ ‘‘
lحاکم نے عروہ ہی کی ایک روایت درج کی ہے جس میں ذکر کرتے ہیں :’’میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا: سنن و فرائض تو آپ نے رسولؐ اللہ سے سیکھے، شعر اور عربی زبان کا علم آپ کو عرب شعراء اور زبان آور خطیبوں کے ذریعے حاصل ہوا، لیکن یہ فرمائیے کہ طب کس ذریعے سے حاصل کیا؟‘‘
انہوں نے جواب میں فرمایا: ’’جن دنوں رسول اللہ ﷺ کی طبیعت مبارکہ ناساز تھی تو اطبائے عرب آپؐ کے پاس آیا کرتے تھے، میں نے انہی سے یہ علم سیکھا۔ ‘‘
lمسروق ذکر کرتے ہیں :’’خدا کی قسم! میں نے صحابہؓ کو حضرت عائشہؓ سے میراث کے مسائل پوچھتے سنا ہے۔ ‘‘ (مستدرک حاکم)
lعطا کہتے ہیں :’’عامۃ الناس میں حضرت عائشہؓ سے زیادہ فقیہ، عالم اور صاحب الرائے اور کوئی نہ تھا۔ ‘‘ (مستدرک حاکم)n
(بحوالہ: سیرت ِ عائشہؓ:عباس محمود العقاد، علامہ جلال الدین سیوطی)