آپ کے جذبۂ خدمت خلق ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے بلا تفریق مذہب وملت تمام لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی۔
EPAPER
Updated: December 27, 2024, 3:42 PM IST | Naeemuddin Faizi Barkati | Mumbai
آپ کے جذبۂ خدمت خلق ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے بلا تفریق مذہب وملت تمام لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی۔
ہندوستان صوفی سنتوں کا ملک ہے۔ اسی لئے برسوں سے یہاں روحانیت کا بو ل بالا رہا ہے۔ اس بات سے انکار بھی نہیں کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ان صوفیائے کرام کو مادی طاقتوں سے کڑا مقابلہ بھی کرنا پڑا۔ ان اخوت ومحبت کا درس دینے والے دیوانوں کو ظالموں کے ظلم کا نشانہ بھی بننا پڑامگر ہمیشہ ان امن کے سفیروں نے بھائی چارہ اور امن ومحبت کو فروغ دیا۔ ایک انسان کو دوسرے انسان سے مل کر رہنے کی تعلیم دی۔ خدمت خلق کواپنی پوری زندگی کا نصب العین بنا لیا۔ بلا تفریق مذہب وملت سماج کے ہر فرد کی خبر گیری کی اور ان کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کا کام کیا۔ انہیں صوفیائے کرام کی جماعت میں ایک نمایاں نام سلطان الہند، عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا آتا ہے۔ جن کے دم قدم سے نہ صرف یہ کہ ہندوستان میں اسلام کی بہاریں آئیں اور شجر اسلام کو ہریالی ملی بلکہ یہاں کے لوگوں کو زندگی جینے کا سلیقہ بھی میسرآیا۔ حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہ ایران کے صوبہ سجستان یاسیستان میں ۱۱۴۳ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا گھرانہ نہایت دیندار اور پرہیز گار تھا۔ آپ کے والد ماجد کا نام حضرت سید غیاث الدین ہے۔ آپ والد کی جانب سے حسینی جب کہ والدہ محترمہ کی طرف سے حسنی سید ہیں۔ آپ ۱۵؍ ہی سال کے تھے تبھی آپ کے والدبزرگوار کا انتقال ہو گیا اور اس کے دو سال کے بعد والدہ مہرباں کا بھی سایہ عاطفت سر سے اٹھ گیا۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی ہندوستان میں آمد سے قبل یہاں بڑے پیمانے پرمعبودان باطل کی پوجا کی جاتی تھی۔ ظلم و استبداد، حق تلفی اور قتل وغارت گری کو عزت وشان تصور کیا جاتا تھا۔ سیدھے سادے اور بھولے بھالے انسانوں کو مادیت کے جال میں پھنسا کران کو گمراہ کیا جا رہا تھا۔ ایسے پر خطر اور پر فتن ماحول میں حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمان نبویؐ پر یہاں تشریف لاکر اس سر زمین کو انوار توحید و رسالت سے ایسا منور کیا اور باطل پر ستی کاقلع قمع فرماکر یہاں کے ذرے ذرے کو بھائی چارگی اور امن محبت کا ایسا درس دیا جو پورے عالم کیلئے رحمت کا پیغام بن گیا۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ کا جذبہ خدمت خلق اور آپ کی انقلابی تعلیمات ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے بلا تفریق مذہب وملت تمام لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی۔ جس طرح مسلمان آپ کے دربار پر انوار میں محبت و عقیدت سے آیاکرتے تھے ٹھیک اسی طرح اس وقت کے بڑے بڑے راجہ مہاراجہ بھی آپ کے اخلاق و تعلیمات سے حد درجہ متاثر تھے۔ جو آج بھی بدستور سابق جاری و ساری ہے کہ ہندوستان کا وزیر اعظم کوئی بھی ہو لیکن وہ خواجہ صاحب کے دربار میں اپنے عقیدت و محبت کا خراج ضرور پیش کرتا ہے۔ آپ نے اپنے اخلاق وتعلیمات کے ذریعہ اسلام کی ترویج و اشاعت نہایت خوش اسلوبی سے کی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے محض دہلی سے اجمیر تک کے سفر کے دوران کم وبیش ۹۰؍ لاکھ افراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ چونکہ آپ کی مبارک تعلیمات مسلمانوں کو موجودہ در پیش مسائل کا حل بھی ہیں اور امن کی بحالی اور بھائی چارہ کے فروغ کیلئے نسخہ کیمیا بھی۔ اسلئے ہم یہاں آپ کی چند تعلیمات کا ذکرکئے دیتے ہیں۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ پر خوف خدا کا اس قدر غلبہ تھا کہ آپ ہمیشہ خشیت الٰہی سے کانپتے اور گریہ وزاری کر تے رہتے تھے۔ آپ اس کے متعلق فرمایا کرتے تھے : اے لوگو! اگر تم کو ززمین کے نیچے سونے والو ں کے ذرا بھی حال معلوم ہو جائیں تو تم مارے ڈر کے کھڑے کھڑے پگھل جاؤ اور نمک کی طرح پانی ہو جاؤ۔
ایک دوسرے مقام پر آپ نے توبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:توبۃ النصوح میں تین باتیں ہوتی ہیں۔ اول: کم کھانا روزے کیلئے۔ دوم:کم سونا اطاعت کیلئے۔ سوم: کم بولنا دعا کیلئے۔ پہلے سے خوف خدا اور دوسرے اور تیسرے سے دل میں محبت بیدار ہوتی ہے۔ جب کوئی اللہ کا نام سنے یا کلام اللہ سنے تو اگر اس پربھی اس کا دل نرم نہ ہو ااور خشیت الٰہی سے اس کا ایمان و اعتقاد زیادہ نہ ہو تو یہ گناہ کبیرہ ہے۔
حضرت خواجہ غریب نوازؒ تمام عمر عشق الٰہی میں وارفتہ اور بے خود رہنے کے ساتھ محبت رسولؐ کے نشے میں سرشار رہے۔ حدیث پاک میں پیغمبر اسلامؐارشاد فرماتے ہیں :کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک، میں اس کے نزدیک اس کے جان، اولاد، والدین اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ اسی عشق الٰہی اور محبت رسولؐ کا صلہ ہے کہ آپ کی شخصیت پورے عالم میں متعارف ومشہور ہوگئی اور ہر جگہ آپ کا نام نامی اسم گرامی نہایت قدرو منزلت اور ادب و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نوازؐ نے شریعت کے تمام احکام کے جزئیات بالخصوص نماز کی پابندی پر بڑا زور دیا۔ نماز کے متعلق آپ فرماتے ہیں :
نماز دین کا رکن ہے۔ اگر ستون کھڑا ہے تو گھر بھی کھڑا رہے گا۔ اور جب ستون گر جائے گا تو گھر بھی سلامت نہیں رہے گا۔ جس نے نماز میں لا پروائی کی اس نے اپنے دین اور ایمان کو خراب کیا۔ نماز مومن کی معراج ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں موجود ہے۔ اس کے بعد فرمایا:نماز ایک راز ہے جو بندہ اپنے پروردگار سے کہتا ہے۔ نمازبندوں کیلئے خدا کی امانت ہے۔ پس بندوں کو چاہئے کہ اس کا حق اس طرح ادا کریں کہ اس میں کوئی خیانت نہ ہونے پائے۔ حضرت خواجہ غریب نواز نماز کے ساتھ روزہ اور حج کی بھی بڑی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ آپ اکثرصائم الدہر رہتے تھے اور آپ نے خانہ کعبہ کی زیارت بھی بکثرت کی ہے۔
حضرت خواجہ غریب نواز پڑوسیوں کے حقوق کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ان کی خبر گیری فرمایا کرتے تھے۔ اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو اس کے جنازہ میں ضرور تشریف لے جاتے۔ جب اس کو دفن کرنے کے بعد لوگ واپس ہوجاتے تو تنہا اس کے قبر کے پاس کھڑے ہوکر اس کیلئے دعائے مغفرت کرتے تھے، اس کے گھر والوں کو صبر کی تلقین کرتے اور انہیں تسلی و تشفی دیا کرتے تھے۔
حضرت خواجہ اجمیریؒ کی تعلیمات میں خدمت خلق اور غریب پروری کا باب سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ اسی سبب خاص وعام سب نے آپ کو غریب نواز کے لقب سے پکارنا شروع کردیا۔ نبی کریمؐنے خدمت خلق کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ انسان ہے جو اس کے مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اور دوسری حدیث پاک میں غریبوں کے بارے میں فرماتے ہیں : سب سے اچھا اسلام، بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے۔ ان دونوں فرمان نبویؐ پر حضرت خواجہ غریب نواز کااتنی سختی کے ساتھ عمل رہا جس کا اندازہ آپ کے ان مبارک اقوال سے لگا یا جا سکتا ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمایا: جو بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور جہنم کے درمیان سات پردے حائل فرما دے گا۔ ایک مرتبہ آپ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے نزدیک محبوب کون سی صفات ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: غمگین افراد کی فریاد سننا، مسکینوں کی حاجت پوری کرنا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا۔ آپ نے اپنے ایک اور ارشاد میں فرمایا:جس میں تین خصلتیں ہوں سمجھو وہ اللہ سے محبت کرتا ہے۔ دریا کی طرح سخاوت، سورج کی جیسی شفقت اور زمین کی طرح انکسار وتواضع۔
عارف کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:عارفین مثل آفتاب کے ہیں جو دنیا پر چمکتے ہیں اور سارا جہاں ان کے نور سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ دورحاضر میں حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی تعلیمات اور آپ کے اخلاق حسنہ کی کتنی اہمیت و افادیت ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ تھوڑا سا بھی عقل رکھنے والا انسان اس بات کو اچھی طرح جانتا اور مانتا ہے کہ دنیا جن اخلاقی اور روحانی بحران سے گزر رہی ہے اگر ایسے بد ترین حالات میں بھی ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر آپ کے اخلاق حسنہ کو اپنے لئے حرزجاں بنا لیاجائے تو آج بھی قوم مسلم دونوں جہان میں کامیاب وسرخرو ہو سکتی ہے اور پوری دنیا میں اخوت ومحبت اور امن وبھائی چارہ کی فضا قائم ہوسکتی ہے۔ ہمیں اپنے وعظ ونصیحت کی محفلوں میں اولیائے کرام کی کرامات وفضائل کے تذکروں کے ساتھ ان امن ومحبت کے متوالوں کے اخلاق حسنہ، تعلیمات وارشادات اور استقامت وصبر کا بھی خوب خوب چرچا کرنا چاہئے تاکہ عوام الناس فضائل ومناقب کے ساتھ ان مذکورہ چیزوں سے بھی واقف ہوں اور اپنے آپ کو ان صوفیائے کرام کی تعلیمات و ارشادات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔