• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نبیؐ کریم یوں تو اُمی تھے لیکن اس دُنیا کو پہلا تحریری دستور آپؐ نے دیا!

Updated: October 25, 2024, 4:39 PM IST | Salman Ghazi | Mumbai

سیرت ِ نبویؐ کے مطالعہ سے ذہن ِ انسانی پر کیسے کیسے راز کھلتے ہیں اس کا اندازہ اُنہی کو ہے جو سیرت کی کتابوں میں آپؐ کے اقدامات اور فیصلوں پر تدبر کرتے ہیں اور اُس حکمت تک پہنچتے ہیں جو آپؐ نے اپنائی تھی۔

Today, the ummah is in trouble due to the distance from the prophet`s example. It is necessary that we spend every moment in obedience to Allah and His Messenger. Photo: INN
آج اسوۂ نبویؐ سے دوری کے سبب امت ابتلا میں نظر آتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر لمحہ اللہ اور اس کے رسولؐکی اطاعت میں گزاریں۔ تصویر : آئی این این

عام حالات میں کسی انسان کی تربیت کے اثرات ایک یا دو نسلوں تک باقی رہتے ہیں لیکن یہ بھی جناب نبی کریم ﷺ کا معجزہ ہے کہ آپؐ نے ایک مختصر عرصے میں امت کی ایسی تربیت فرمائی کہ اس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔ رسولؐ اللہ کے زمانے میں قریش مکہ اورمدینہ منورہ کے انصار پر مبنی پہلی بار مسلمانوں کی ایک قوم بنی۔ تاریخ گواہ ہے کہ حق تعالیٰ جل شانہ نے عربوں میں قریش کو اور یثرب میں انصار کو ایک اہم دینی مقصد کیلئے چنا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جناب رسولؐ اللہ کی تربیت اور حکمت عملی نے ان کے اذہان کو ایسا صیقل کر دیا کہ اُن جیسی شخصیت نہ تو دوبارہ پیدا ہوئی اور نہ پیدا ہونے کا امکان ہے البتہ ہر امتی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی دُنیا اور عاقبت دونوں سنوار سکتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، فرمایا گیا:
’’میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ ‘‘
 نبوت کے بعد کے مختصر سے عرصے میں جن مصائب اور پریشانیوں کا سامنا آپؐ نے کیا وہ اگر کسی عام انسان کے سامنے آ تیں تو اس کا امکان ہی نہیں تھا کہ وہ اس میں ایک مثبت رخ اختیار کرتے ہوئے نکل سکتا۔ ہجرت کے بعد یوں تو کفار کے ساتھ کئی جنگیں مسلمانوں نے لڑیں لیکن دو مسائل ایسے تھے جن سے مقابلہ سخت تھا: ایک یہودی اور ان کی سازشیں اور دوسرے منافقین۔ یہودی ویسے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے مدینے میں آباد تھے لیکن ان ہزاروں سالوں میں روم یا بابل کی سلطنتوں کے خلاف ان کی لڑائی کی کوئی روایت نہیں ملتی حتیٰ کہ انہوں نے کسی عرب قبیلہ کے خلاف بھی کبھی تلوار نہیں اٹھائی لیکن اسلام کی آمد انہیں سخت ناگوار گزری اور وہ جناب رسولؐ اللہ کے خلاف سازشوں میں مشغول و مبتلا ہوگئے۔ اس کے بر خلاف کفار مکہ حملہ آ وروں میں تھے اسلئے ان کی سرکوبی ضروری تھی جبکہ یہود اور منافقین ظاہری طور پر مسلمانوں کے ساتھ تھے مگر گوناگوں سازشوں کے ذریعے نور توحید کوبجھانے کی کوششوں میں سر گرداں تھے۔ 
جب غزوہ احزاب میں اتحادیوں کی فوجیں بدحواسی کے عالم میں فرار ہورہی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے فرمارہے تھے کہ مشرکین اب دوبارہ مدینہ پر فوج کشی کی ہمت نہ کریں گے اور اب ’’ہم پیش قدمی کریں گے‘‘ جس طرح سے آپؐ نے کفار مکہ کو تین جنگوں کے بعد زیر کر لیا تھا بالکل اسی طرح یہودیوں کو بھی زیر کیا جا سکتا تھا۔ لیکن آپؐ نے ان سے جنگ کے بجائے معاہدے کئے۔ اس میں ایک حکمت یہ تھی کہ اگر وہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرینگے تو الزام انہیں کے سر جائے گا اور اگر وہ ثابت قدم رہے تو مسلمانوں کو امن کے ساتھ اپنی اقتصادیات کو بہتر بنانے کا موقع ملے گا۔ ہجرت کے نتیجے میں بہت سے وہ صحابہ ؓ بھی مکہ چھوڑ کر چلے گئے جن کی تجارت سے مکہ کی اقتصادی ترقی قائم تھی اور ہجرت سے مکہ کی اقتصادیات کو زبر دست دھکا لگا تھا۔ 
آپؐ نے اپنے اس عمل سے در اصل اپنی امت کو پیغام دیا کہ جب تک کوئی تم پر حملہ آ ور نہ ہو اس وقت تک اس سے جنگ نہ کی جائے، یہی نہیں بلکہ دوسرے طریقوں سے بھی دشمن کو زیر کرنے کی کوشش کی جائے۔ جہاں تک ممکن ہو جنگ سے گریز کیا جائے خواہ اس میں آپ کو ایک قدم پیچھے ہی کیوں نہ ہٹنا پڑے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں رسول ؐاللہ نے کفار کی ناروا شرطیں بھی مان لی تھیں اور ایک خونیں جنگ کے امکان کو ختم کر کے بے مثال رحم دلی کا مظاہرہ فرمایا تھا۔ اس عمل میں امت کیلئے اختلافات سے بچنے کا ایک عمدہ پیغام ہے۔ آپؐ پر نازل ہونے والی کتاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ تمہارے لئے اللہ کے رسول (کی سیرت) میں ایک عمدہ نمونہ موجود ہے۔ ‘‘ (الاحزاب: ۲۱)
کاش ہمارے سیاسی قائدین میں سیرت طیبہ کے مطالعے کا ذوق پیدا ہو جائے۔ 
ابن خلدون نے ابو الفرج اصفہانی (کتاب الاغانی)کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ یثرب میں یہود کی آمد سے بہت پہلے عمالقہ اس بستی کے اولین باشندے تھے۔ عمالقہ کے قبائل بنی نعیف اوربنی سعد، بنی ازرق اور بنی نطرون یثرب میں رہتے تھے اور’’شراور فساد سے بھرے ہوئے تھے‘‘ جبکہ انصاریثرب آمد کے موقع پر مشرک نہیں بلکہ موحد اور تبع حارثہ بن ثعلبہ کے پیرو کارتھے اور اسی لئے دیگر عرب مشرک قبائل کے برعکس یہود نے انہیں یثرب میں قیام کی اجازت دے دی تھی لیکن اوس اور خزرج کی آپسی دشمنی نے انہیں کمزور کر دیا تھا جس کا راست فائدہ یہودیوں کو پہنچ رہا تھا لیکن وہ چونکہ صالح ذہن کے مالک تھے اس لئے اوس اور خزرج دونوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ بر سوں سے چل رہی جنگ ان کے مفاد میں نہیں تھی اور انہیں برادر کشی کے بجائے تعلقات کواستوار کرنے کی ضرورت تھی اور یہی ضرورت انہیں مکہ لے گئی جہاں انہوں نے بیعت عقبہ اولیٰ کیلئے رسولؐ اللہ سے ملاقات کا عزم کیا۔ یہ بیعت مثبت احکامات پر مبنی عمل کی دعوت تھی۔ یہ احکامات ازحد واضح اور دلکش تھے۔ ان میں صرف بھلائی اور ہمدردی، رحم و کرم پر مبنی ایک صالح معاشرے کی بنیاد رکھنے کی طرف دعوت دی گئی تھی۔ پھر اس کے بعد یثرب کے ان اشخاص کی تعلیم و تربیت کیلئے قریشی نوجوان کو منتخب کیا جس نے چند ماہ میں یثرب کے ہر گھر کو ایک مدرسہ بنا دیا۔ غور فرمائیے کہ اس تہذیبی انقلاب کو اُس شخصیت نے برپا کیا جس نے فرمایا: انما بُعثتُ معلما ( میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں )۔ یاد رہے کہ اس بیعت میں سبقت حاصل کرنے والے یثرب کے نوجوان صحابی اسعدؓ بن زرارہ تھے جنہوں نے مدینہ میں جمعہ کی نماز قائم کی اور پہلی جمعہ کی نماز پڑھائی جو اس نئے عہد کا آ غاز بن گیا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ یثرب کے لوگ معقول باتوں سے اجتناب نہیں کرتے تھے اور حق کو قبول کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ غصہ ایک فطری عمل ہے۔ کہتے ہیں غصہ خوف کا نتیجہ ہوتی ہے، انصار چونکہ کسی خوف میں زندگی نہیں گزار رہے تھے اس لئے انہوں نے اپنے غصہ کو اپنی عقل پر حاوی نہ ہونے دیا۔ 
جناب رسولؐ اللہ کی سیرت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ نے ہمیشہ حق کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی دلجوئی فرمائی اور امت کو یہ پیغام دیا کہ نومسلم جب اپنا سب کچھ چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں تو ان پر مشکلات آتی ہیں ، ذہنوں میں خدشات آتے ہیں جیسا کہ مدینے میں اوس اور خزرج کے دلوں میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ رسولؐ اللہ کے حلیف بننے سے اور ان کو غلبہ حاصل ہونے کے بعد انصارکے یہودسے تعلقات پر یقینی اثر پڑے گا اور ان کی اقتصادیات بھی متاثر ہوگی، اس لئے دریافت کیا کہ کیاایسی صورت میں آپ ہمیں چھوڑ کر اپنے شہر اور لوگوں میں واپس چلے جائیں گے؟ یہ سوال سن کر آپؐ مسکرائے۔ آپؐ نے وضاحت کے ساتھ اہل یثرب کی یقین دہانی کی اور فرمایا: ’’ نہیں ، بلکہ میرا خون تمہارا خون ہے، میری ناکامی تمہاری ناکامی ہوگی، میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو، میں ان سے لڑوں گا جن سے تم لڑوگے، اور ان سے سلامتی رکھوں گا جن سے تم سلامتی سے رہوگے۔ ‘‘ اس طرح، تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جنت اور اللہ کی رضا کے سوا اہل یثرب نے کسی اور چیز کی فرمائش بھی نہیں کی۔ 
بیعت عقبہ ثانیہ جو بیعت النسا بھی کہلاتی ہے اس میں ۷۵؍ مرد و عورت نے آپؐ کی معرفت اللہ سے وفاداری کا عہد لیا۔ رسول ؐاللہ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ نہ صرف یہ کہ خود منظم زندگی گزارتے تھے بلکہ نظم کو پسند بھی فرماتے تھے اور آپؐ کی تربیت میں اس کی خاص اہمیت تھی۔ ہر موقع پر آپؐ امت کے معاملات کی تنظیم اور ترتیب کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ مکہ کے ابتدائی دور میں تو مسلمانوں کی تعداد چالیس سے بھی کم تھی۔ اس وقت بھی آپؐ نے ضروری سمجھا کہ امت کا ایک مر کز ہو جہاں امت کے مسائل پر غور ہو سکے اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار ہو سکے۔ اس مقصد کے لئے آپؐ نے دار الارقم کا انتخاب فرمایا جو اسلام کا پہلا مدرسہ بھی تھا اور عظیم الشان سیاسی، سماجی اور معاشرتی ادارہ بھی۔ 
رسولؐ اللہ نے دنیا کو ایک بالکل نیا معاشرہ دیا جس کی بنیاد ’’بھلائی پر اصرار اور برائی کا استیصال‘‘ پر تھی لیکن معاشرے کو قانون کا پاسدار بنانے کے لئے تنظیم اور ضبط کی ضرورت ہوتی ہے جس کی ضرورت آپ ؐ کو بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد محسوس ہوئی۔ عربوں کے مزاج میں انتقامی جذبہ تھا جس کے سبب جنگیں نسل در نسل جاری رہتی تھیں۔ ظلم کا رد عمل زیادہ شدید ہوتا ہے جو اپنی تباہی پر منتج ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری تھا کہ اس ردعمل کی نفسیات سے قوم کو باہر نکالا جائے۔ آپؐ کے اس سیاسی، سماجی اور معاشرتی مثبت تربیتی نظام کا اثر ہمیں خلافت راشدہ بلکہ بڑی حد تک بعد کے ادوار میں بھی نظر آتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مکہ میں انتہائی حالات میں بھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 
بیعت عقبہ ثانیہ کے فوراً بعد آپؐ نے بارہ نمائندوں کو تجویز کرنے کا حکم دیاگویا آپؐ نے ہر ایک کو اپنی رائے کی آزادی دی اور اس رائے کے اظہار کا پورا موقع عنایت فرمایااور رائے عامہ کی آزادی کا اصول دُنیا کو دیا جو در اصل انسانی تاریخ کا پہلاآئینی انتخابی عمل تھا۔ یہ صرف بارہ نقیبوں کا انتخاب نہیں تھا جو اپنے اپنے قبائل کے صدر اور محافظ تھے بلکہ حقیقتاً سیاسی تربیت کی ابتدا تھی۔ 
یہی نہیں بلکہ عقبہ ثانیہ میں عورتوں کو رائے دینے کا حق بھی پہلی بار تسلیم کیا گیا۔ یہاں یہ بات قارئین کی دلچسپی کے لئے بتا دی جائے کہ نام نہاد ترقی یافتہ یورپ میں ۱۹۱۵ء میں ڈنمارک میں پہلی بار عورتوں کو ووٹ کا حق دیا گیا تھا، تین سال بعد ۱۹۱۸ء میں برطانیہ نے صرف ان عورتوں کو یہ حق دیا تھا جن کی عمر ۳۰؍ سال ہو اور وہ صاحب جائداد ہوں جبکہ امریکہ کی عورتوں کو یہ حق ۲۶؍ اگست ۱۹۲۰ء کو حاصل ہوا۔ گویا رسولؐ اللہ نے اس روز نئے عہد، نئی تہذیب اور نئے تمدن کی بنیاد رکھی جسے دُنیا نے صدیوں بعد دریافت کیا۔ یہ دراصل سیاسی تربیت تھی کیونکہ صحابہ کرام ؓ ہر معاملے میں آپؐ کی ہدایات کے منتظر رہتے تھے لیکن آپؐ کو علم تھا کہ آپؐ کے بعد صحابہ ؓکو اور پھر امت کو قیادت کرنی ہے۔ آپؐ چاہتے تھے کہ وہ آ زادانہ سیاسی فیصلے کریں جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہوں۔ 
معاشرے کے سیاسی اور معاشرتی ہر پہلو پر آپؐ کی نگاہ تھی۔ غور فرمائیے تو مہاجرین اور انصار میں مواخات نوع انسانی کے لئے ایک بالکل نیا اور عجیب تجربہ تھا جس کی مثال نہ ماضی میں ملتی ہے اور نہ ہی اس کے بعد کسی نے تجربہ کیا۔ آپؐ نے حضرت انس بن مالک ؓ کے مکان میں بیٹھ کر مہاجرین اور انصار میں ۹۰؍ اراکین کے درمیان مواخات کے رشتے قائم کئے جن میں ۴۵؍ مرد اور ۴۵؍ عورتیں تھیں۔ اس طرح آپ ؐ نے مہاجرین جن کی تعداد پانچ سو تھی انہیں انصار کے ساتھ اس طرح سے مر بوط فرما دیا تھا جیسے وہ سگے بھائی بہن ہوں۔ صحابہؓ کی صالح فطرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مواخات یا بھائی بندی ان پر تھوپی نہیں گئی جسے انہوں نے بادل نا خواستہ قبول کیا ہو بلکہ کسی ایک انصاری نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا اور بخوشی اور بسر و چشم اسے قبول کیا۔ اس میں آپ ؐ نے ایک اور چیز کا التزام فرمایا کہ حضرت زید بن حارثہ ؓ جو ایک غلام تھے ان کی مواخات حضرت حمزہ ؓ سے کی جو قریش کے ایک افضل قبیلے سے تھے اسلئے ایک سردار اور غلام میں بھائی بندی کر کے مساوات کا پیغام امت کو دیا۔ غور کیجئے کیا کیا حکمتیں آپ کے فیصلوں میں پوشیدہ تھیں !
آپؐ اُمی تھے لیکن اس دنیا کو پہلا تحریری دستور دیا جس میں قانونی زبان اور محاورہ کے موجد رسولؐ اللہ ہیں۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ کی سپریم کورٹ میں جہاں ان تاریخی ہستیوں کے نام کندہ ہیں جنہوں نے دنیا کو تحریری دستور دیئے ان میں جناب رسولؐ اللہ کا اسم گرامی شامل ہے۔ اس دستور میں انتظام ِحکومت صوبوں کے اختیارات اور تعلقات، ریاست کی حدود، جنگ و امن کے مسائل اور قوائد، مالیات اور عورتوں اور غلاموں کے تحفظ جیسے مو ضوعات کااحاطہ کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے باہمی روابط سے متعلق بھی احکامات اس میں نظر آتے ہیں۔ 
رسولؐ اللہ نے شوریٰ کا نظام قائم فرمایا جس کی اسلام میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ بد قسمتی سے آج مسلمان اس دستور پر عمل تو کیا کرتے، اس سے نا آ شنا ہی ہیں۔ رسولؐ اللہ کے نزدیک صحابہ ؓ کی رائے کی غیر معمولی اہمیت تھی حتیٰ کہ اذان جیسی مہتم بالشان عبادت کا اجرا بھی حضرت عبداللہ بن زید ؓ کے خواب کے نتیجے میں ہوا جس کی تائید حضرت عمر ؓ کے ویسے ہی خواب سے ہوئی۔ جنگ بدر اور احد کے موقع پر بھی آپؐ نے صحابہ کے مشورے کے بعد ہی اقدامات کئے تھے۔ بعد کے ادوار میں جب اس کی اہمیت کم ہو گئی تو امام ابو حنیفہ ؒنے اپنے فقہ کی بنیاد شوریٰ پر رکھی اور ایک سنت کو زندہ کیا۔ آج اسوۂ نبویؐ سے دوری کے سبب امت ابتلا میں نظر آتی ہے، کاش کوئی مرد حق ایسا پیدا ہو جو ایک بار پھر امت کو رسولؐ اللہ کے نقش قدم پر چلا سکے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK