• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

انگریزی کے طوفان میں اُردو کی شمع کو کس طرح روشن رکھا جاسکتا ہے؟

Updated: December 24, 2023, 2:55 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

کوئی ایک زبان، کسی دوسری زبان کو ختم نہیں کرسکتی۔ البتہ اپنی کو تاہ چشمی اور کو تاہ دامنی کی بناء پر کوئی زبان دم توڑ دے تو یہ اس زبان کے جاننے والوں کی کمزوری ہے،اسلئے اس کمزوری پر قابو پانا ضروری ہے۔

The first responsibility of learning Urdu is the people of Urdu. Photo: INN
اردو کوبچانے کی پہلی ذمہ داری اردو والوں کی ہی ہے۔ تصویر : آئی این این

آج ملک بھر میں اردو کے حالات کچھ زیادہ خوش کن نہیں ہیں ۔ چند علاقوں میں اسکولوں میں چھائی رہنے والی یہ زبان اب کمزور پڑتی جارہی ہے اور یہاں کچھ ریاستوں میں یہ تو بالکل نزاع کے عالم پہنچ چکی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ انگریزی زبان اور اس کا پھیلاؤ ہے۔ دراصل انگریزی کے پھیلاؤ کی وجہ سے صرف اردو ہی نہیں بلکہ برِّصغیر کی کئی اور زبانیں بھی پریشان ہیں اور خائف بھی اور کئی زبانیں اس زبان کے سامنے ہتھیار تک ڈال چکی ہیں۔
 سچائی یہ ہے کہ کوئی ایک زبان، کسی دوسری زبان کو ختم نہیں کرسکتی۔ البتہ اپنی کو تاہ چشمی اور کو تاہ دامنی کی بناء پر اگرکوئی زبان دم توڑ دے تو یہ اس زبان کے جاننے والوں کی کمزوری ہے۔ اب انگریزی زبان ہی کی بات لیجئے کہ اسے عالمی سطح پر کہیں روسی روکے ہوئے ہیں اور کہیں چینی، کہیں جاپانی اور کہیں ہندی اور بھر پور طاقت سے روکے ہوئے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہر ملک میں اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس ملک ہی کی مثال لیجئے۔ لگ بھگ آٹھ دہائیاں بیت گئیں ،یہاں سے انگریز چلے گئے بلکہ نکالے گئے اور انگریزی بھی اس شدّت اور نفرت کے ساتھ نکالا گیا مگر کیا وجہ ہے کہ ۱۹۴۷ ء میں انگریزی کی جو پوزیشن تھی، آزاد ہندوستان میں آج ۷۷؍ سال بعد اس کی پوزیشن پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط ہوگئی ہے۔ ان ۷۷؍برسوں میں پورے جنوبی ہند کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد اب ہندی ریاستوں میں جا کر ہندی کی جڑیں بھی کھوکھلی کرنے میں جٹ گئی ہے۔ 
 آزادی کی ان آٹھ دہائیوں میں انگریزی کو روکنے کی کیا کیا کوششیں نہیں کی گئیں۔ انگریزی کے خلاف انتخابی جلسے جلوس سیمینار اور کانفرنسیں منعقد ہوئیں ۔ انگریزی زبان کے پُتلے جلائے گئے، انگریزی سائن بورڈ پر کالک پوتی گئی۔ آکاش وانی اور دور درشن کو یک نکاتی پروگرام دیا گیا: ’انگریزی ہٹاؤ‘۔ پورے ملک میں یہ پالیسی طے کی گئی کہ انگریزی میڈیم اسکولوں کو حکومت سے کوئی مالی امداد نہیں دی جائے گی۔ مالی امداد نہیں ملے گی تو یہ اسکولیں زندہ ہی کیسے رہیں گے ؟ انگریزی ادب کے سِوا ہر زبان کے ادب پر بڑے بڑے ایوارڈ اور تصانیف وکتابوں پر بڑی بڑی رقمیں دی جانے لگیں۔ اس کے باوجود انگریزی تیز رفتاری سے پورے ملک میں رائج ہوتے جا رہی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے۔
انگریزی کا یہ شکنجہ اردو پر بھی کستا جا رہا ہے۔ ہم مشاعروں میں جھوم رہے ہیں ۔ ادھر اُردو اسکولیں دھڑا دھڑ بند ہو رہے ہیں اور جو جاری ہیں وہ نزاع کے عالم میں پہنچ چکے ہیں ۔ انگریزی کی سونامی لہروں کی لپیٹ میں اردو اسکولیں بھی آچکے ہیں۔ خطرے کے بادل تمام اردو اسکولوں پر منڈلا رہے ہیں اور ان اسکولوں کے اساتذہ یہی دعا کرتے نظر آرہے ہیں کہ ’’اے اللہ میرے ریٹائر ہونے سے پہلے یہ اسکول بند نہ ہو۔ میرے ریٹائر ہونے تک اس اسکول کو زندہ رکھنے کیلئے میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں ۔ گھر گھر جا کر بچّوں کو جمع کروں گا۔ بیاضیں کتا بیں ، یونیفارم دلوا کر دُور دراز کے بچّوں کو بھی اس اسکول میں لے آؤں گا تا کہ کم از کم میں ریٹائر ہونے تک یہ اسکول بند نہ ہونے پائے۔ اس وقت اس کلاس میں ۲۰۔۲۰؍ بچّے ہیں۔ میں ریٹائر ہونے تک یہاں کے ہر کلاس میں یہ گھٹ گھٹ کر ۱۰۔۱۰؍رہ جائیں ، تب بھی اسکول جاری تو ر ہے گا۔ ۲۰۲۸ء میں ریٹائر ہورہاہوں ، اس وقت تک تو یہ اسکول جاری رہے گا یعنی میری ملازمت کو خطرہ نہیں ۔ اب اس کے بعد یہ اسکول بند بھی ہو جائے تو اس کی فکر میں کیوں کروں ؟ ویسے میرا اپنا بچہ تو یہاں پڑھ بھی نہیں رہا ہے؟‘‘
اب اگر اردو اسکولوں کو بچانے کے لئے نیک نیتی کاہی فقدان ہو تو یہ زبان زندہ کیوں کر رہے گی ؟ اور اگر وہ روتی بسورتی اور سسکتی ہوئی زندہ بھی ہے تو کس کام کی کیونکہ وہ دوسری زبانوں کا زندگی اور زمانے سے مقابلہ کرنے سے تو رہی۔ اب اس بناء پر وقت آن پڑا ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں اردو اسکول کو صرف بچانے اور زندہ رکھنے کی نہیں بلکہ وقار کے ساتھ زندہ رکھنے کا ایک منظم پروگرام مرتّب کریں۔
آئیے سب سے پہلے ہم یہ سمجھیں کہ آخران اردو اسکولوں کا زندہ رہنا کیونکر ضروری ہے؟
 اس کی سب سے پہلی اور اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام ماہرین تعلیم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بچّے کی ابتدائی وثانوی تعلیم اس کی مادری زبان میں ہونی چاہئے۔
  اردو اسکولوں کا کیوں زندہ رہنا ضروری ہے اس کی دوسری وجہ بیان کرنے کیلئے ہم گزشتہ سال کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہیں گے۔ ہمارے ایک شناسا ہیں ۔ وہ انگریزی میڈیم کے بڑے دلدادہ ہیں اور اس کے تعلق سے کچھ اس قدر جذباتی ہیں کہ ان کا کہناہے کہ فوری طور پر سارے اردو میڈیم اسکولوں کو انگریزی میڈیم میں تبدیل کردیاجانا چاہئے۔ انہیں ہم گزشتہ سال مہاراشٹر کے ایک ضلع میں اساتذہ کی رہنمائی کیلئے منعقدہ ہمارے ایک لیکچر میں لے گئے جہاں دونوں جگہوں پر۷۰۰؍اساتذہ حاضر تھے۔ انگریزی کے دلدادہ ہمارے اس دوست کو ہم نے بتایا کہ مہاراشٹر کے صرف ایک ضلع رتنا گیری کے اردو میڈیم پرائمری اسکولوں میں ۷۰۰؍اساتذہ تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اس صرف ایک ضلع کے اردو پرائمری اساتذہ کیلئے حکومت مہاراشٹر ہر مہینے کم و بیش تین کروڑ روپے تنخواہ دیتی ہے۔ آج اگر ہم اردو میڈیم اسکولیں بند کردیتے ہیں اور ان سبھوں کا میڈ یم انگریزی بناتے ہیں تو دوسرے ہی دن منترالیہ سے محکمۂ ایجوکیشن کے افسران ہار پھول لے کر آئیں گے اور کہیں گے کہ حکومت کی سالانہ کروڑوں روپے کی مالی امداد واپس کرنے کا دِلی شکریہ۔ یہ اردو ذریعہ تعلیم کے اسکول اگر انگریزی میڈیم کے بن جاتے ہیں تو حکومت ان کو ایک پھوٹی کوڑی بھی مالی امداد نہیں دے گی۔ اس لئے کیا ہمارے پاس کوئی ایسا ٹرسٹ یا ایسے کوئی وسائل ہیں جن سے صرف رتنا گیری ضلع کے اردو ذریعہ تعلیم کے پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کی ایک ماہ کی تین کروڑ روپے کی تنخواہوں کا انتظام ہو سکے گا؟ ہر گز نہیں لہٰذا راتوں رات اردو سے انگریزی میڈیم کرنے پر ان اسکولوں کے اساتذہ کا انتخاب مجبور اًاس طرح ہوگا کہ جو سب سے کم تنخواہ طلب کرے گا، اسے بہتر استاد کہا جائے گا۔ ان اسکولوں میں ہزار پندرہ سوروپے ماہانہ تخواہ پانے والے اساتذہ ہی کا تقرر کرنا ہوگا۔ اب ہزار پندرہ سوماہانہ تنخواہ پانے والے اسکولوں کا معیار کیا ہوگا؟ کیسا ہوگا؟ یعنی ہوگا یہ کہ ناقص معیار کے اردو میڈیم اسکولیں بند کر کے ناقص ترین معیار کے انگریزی میڈیم اسکول قائم ہوجائیں گے۔ 
 آج بد قسمتی سے یہی کچھ ہورہا ہے۔ ہم اس کے لئے مثال دینا چاہیں گے کہ مہاراشٹر میں پنویل سے لے کر ساونت واڑی تک کو کن پٹّی کی۔ آج یہاں پر مسلم انتظامیہ کے تحت کم و بیش ۴۸؍ انگلش میڈیم اسکول جاری ہیں ۔ کچھ کے جی اور پرائمری اسکولیں ہیں اور کچھ ہائی اسکول کلاسوں تک پہنچے ہیں مگر ان میں سے ایک بھی انگلش میڈیم اسکول کا معیار اور مقام قابل ذکر نہیں ۔ لگ بھگ سبھوں کا معیار ناقص ہے۔ جہاں ایس ایس سی /ایچ ایس سی پاس طلبہ ایس ایس سی تک کے طلبہ کو پڑھا رہے ہیں ۔ ان میں سے اکثر اسکولوں میں انٹرویو میں اساتذہ کو سب سے پہلا سوال وہ پو چھا جاتا ہے جسے سب سے آخر میں پوچھنا چاہئے۔ جی ہاں ، انٹر ویو کچھ اس طرح کا ہوتا ہے:
انتظامیہ: ہمارا پہلا سوال ہے کہ آپ کو ماہانہ کتنی تنخواہ منظور ہے؟
ٹیچر:پانچ ہزار روپے ماہانہ۔ انتظامیہ: ویری گڈ!کل سے کام پہ آجاؤ۔ اورپھرانٹر و یو ختم۔ان اسکولوں میں داخلے کیلئے البتہ والدین میں جنون طاری ہے کہ اب ان کا بچّہ’ آ سے آدمی‘ کے بجائے ’جیک اینڈ جل‘ گاتے ہوئے گھر میں داخل ہو رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK