عالمی کھیل مقابلوں میں ساکشی ملک کے میٖڈل جیتنے ہر خوش ہونے والے ایک ایک ہندوستانی شہری پر لازم تھا کہ ان کی حمایت میں آگے آتا اور جس کسی ذریعہ سے یک جہتی کا اظہار کرسکتا تھا، کرتا مگر دو تین کھلاڑیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی ان کی حمایت میں بولتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
ساکشی ملک ۔تصویر :آئی این این
عالمی کھیل مقابلوں میں ساکشی ملک کے میٖڈل جیتنے ہر خوش ہونے والے ایک ایک ہندوستانی شہری پر لازم تھا کہ ان کی حمایت میں آگے آتا اور جس کسی ذریعہ سے یک جہتی کا اظہار کرسکتا تھا، کرتا مگر دو تین کھلاڑیوں کو چھوڑ کر کوئی بھی ان کی حمایت میں بولتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہ بات سمجھنے کو کوئی تیار نہیں ہے کہ مظلوم کا ساتھ نہ دینا ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ حیرت ہے کہ دیگر کھیلوں بالخصوص کرکٹ سے وابستہ نئے پرانے کھلاڑیوں نے ساکشی کے حق میں لب کشائی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ مصلحت بری چیز نہیں ہے اگر حکمت پر مبنی ہو۔ جب اس کی وجہ منافقت اور بزدلی ہو تو یہی مصلحت انسان کو بے قیمت بنا دیتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں کھلاڑیوں کا ساتھ دینے سے کھلاڑی بھی کترا رہے ہیں ۔ ادھر فلم اسٹار بھی خاموش ہیں ۔ سیاستدانوں میں بھی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اہل اقتدار کے تیور دیکھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرتے ہیں ۔ سول سوسائٹی ایسے معاملات میں ہمیشہ پیش پیش رہتی تھی مگر سیاسی ماحول کے جبر نے سول سوسائٹی کے ایک بڑے طبقے کو اس طرح الجھا دیا ہے کہ اب شاید اسے بھی کسی کی حمایت یا کسی احتجاج سے پہلے دس مرتبہ سوچنا پڑتا ہے۔ ایسے حالات میں عین ممکن ہے کہ ساکشی چند روزہ احتجاج کے بعد خاموش ہوجائے اور خاطی شخص کا ’’دبدبہ‘‘ جو آج برقرار ہے وہ کل بھی برقرار رہے۔ ’’دبدبہ‘‘ اس سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے برقرار تھا، ہے اور یقینا آئندہ بھی رہے گا جس میں تب بھی کمی نہیں آئی جب یہ بچیاں دہلی میں دھرنا دے رہی تھیں ۔ دھرنے کو عوامی حمایت تو ملی مگر جس قدر ملنی چاہئے تھی، نہیں ملی۔ تو کیا ہمارا یہ سماج باخبر ہونے کے باوجود بے خبر رہنے میں عافیت محسوس کرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیوں ہے؟ کیا ہوگیا ہے اسے؟ جو بھی ہوا وہ اتنا اچانک کیسے ہوا؟ ابھی کل تک تو جنتر منتر پر غیرمعمولی مجمع ہوتا تھا، انڈیا گیٹ کے مظاہرے سرخیوں میں رہتے تھے اور دہلی کے علاوہ دیگر شہروں کے باشندے بھی اپنی شہری اور جمہوری ذمہ داریوں کو محسوس کرتے تھے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی شکایتیں انڈیل کر اور بھڑاس نکال کر چپ ہورہنا ان کی عادت بنتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر صورت حال یہ ہے کہ اگر کسی کی حمایت بڑھنے لگتی ہے تو فورا ہی دوسرا گروہ مخالفت کی تان اتنی لمبی کردیتا ہے کہ حمایت کی آواز پست ہوجاتی ہے۔ کوشش یہ ہے کہ سماج کچھ نہ سنے، کچھ نہ کہے اور کچھ نہ بولے۔ موجودہ حالات میں غیرممکن ہے کہ کوئی انا ہزارے اٹھے، تحریک چلائے، اس کی تحریک کو عوامی حمایت حاصل ہوجائے، میڈیا اس تحریک کو گھر گھر پہنچا دے اور اس کے نتیجے میں حکومت بدل جائے۔
مگر، کیا ساکشی اور اس کی ساتھیوں کی آواز بالکل بھی سنی نہیں جائیگی؟ اگر ایسا ہوا تو یہ خواتین کے تحفظ اور ان کے کریئر کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا اشارہ ہے۔ ایک طرف ہم خواتین کو بچانے، پڑھانے اور آگے بڑھانے کی بات کرتے ہیں ، دوسری طرف ان پر آنے والی مصیبتوں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور انہیں تحفظ کی ضمانت نہیں دینا چاہتے۔خواتین پہلوانوں کے سلسلہ میں بعدازخرابیٔ بسیار کل اچانک حکومت حرکت میں آئی اوراس نے چند فیصلے کئے ہیں ۔ ان فیصلوں کے پس ِ پردہ کیا ہے ا س کو سمجھنا ہوگا فی الحال ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ساکشی، بجرنگ پونیا اور گونگا پہلوان کی جانب سے جو دباؤ پڑ رہا ہے اسی کی وجہ سے یہ فیصلے ہوئے ہیں ۔ مگر کیا برج بھوشن سنگھ کے خلاف کارروائی ہوگی یہ اہم سوال ہے ۔