Updated: September 05, 2024, 2:06 PM IST
| Mumbai
کوئی افسر بدعنوان ہو تب بھی لوگ اسکے ساتھ عزت سے پیش آتے ہیں یا نہیں ؟ پھر اُستاد کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے؟ اگر سماج یہ توقع کرتا ہے کہ تمام اساتذہ لائق قدر ہوجائیں تو یہ کام آسان ہوجائیگا اگر سماج اُن کی قدر میں پہل کرے۔ یوم اساتذہ اسی پہل کی دعوت دیتا ہے۔
یوم اساتذہ کون مناتا ہے؟ اس کا سیدھا جواب ہے: وہ طلبہ جو ابھی اسکولوں، کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہیں۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ زیر تعلیم طلبہ کا فیصد ہماری مجموعی آبادی کا ۱۰؍ فیصد ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ یوم اساتذہ صرف ۱۰؍ فیصد لوگ مناتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اس دن کا انتظار کرتا ہے تو ایسے سابق طلبہ ہیں جو طالب علمی کا دور ختم ہوجانے کے باوجود اپنے اساتذہ کو یاد رکھتے ہیں اور اِس دن اپنے اِن محسنین سے رابطہ کرکے اپنے مرہون احسان ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ ایک فیصد ہیں تو سمجھئے کہ پوری آبادی میں صرف ۱۱؍ فیصد یوم اساتذہ مناتے ہیں۔ باقی ۸۹؍ فیصد آبادی اس سے بیگانہ رہتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اساتذہ کے احسانات سال کے ۳۶۵؍ دن یاد کئے جانے چاہئیں مگر روزانہ اس کا اظہار ممکن نہیں اس لئے ایک دن (یوم اساتذہ) مختص کیا جانا چاہئے اپنے اساتذہ کو یاد کرنے، اُن کی خیریت معلوم کرنے اور اُن کا شکریہ ادا کرکے اُنہیں یہ احساس دلانے کیلئے کہ معاشرہ اُن کی قدر کرتا ہے۔ ایسے لوگ جن کے اساتذہ اب اِس دُنیا میں نہیں ہیں، وہ موجودہ اساتذہ سے مل کر اُنہیں اس دن کی مبارکباد پیش کرسکتے ہیں۔ جذبہ ہے تو کسی دوسرے استاد کی قدر کے ذریعہ انسان اپنے استاد کی قدر کا حق ادا کرسکتا ہے۔ معاشرہ جب اساتذہ کی قدر کرنے لگے گا اور اُن کی خدمات کا اعتراف کریگا تو اساتذہ کی ناقدری کا رجحان، جو کسی بھی زاویئے سے فائدہ مند نہیں ہے، ختم ہونے لگے گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ معاشرہ کا ہر فرد یوم اساتذہ پر، اپنے قریب کے کسی ایک معلم یا معلمہ کو مبارکباد پیش کرے خواہ وہ سبکدوش ہو یا برسرکار؟ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ بعض چیزیں علامتی ہوتی ہیں مگر اُن کا اثر گہرا۔ یہ کہہ کر ایسے کسی بھی مشورہ کو مسترد کردینا کہ ’’آج کل کے اساتذہ میں وہ بات نہیں ‘‘ چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے پوری برادری کو مسترد کرنے جیسا ہے اور ہماری نظر میں یہ سخت نا انصافی ہے۔
یقین جانئے، آج بھی ایسے اساتذہ ہیں جو طلبہ کیلئے اُتنی ہی محنت کرتے ہیں جتنا کہ ماضی کے اساتذہ خود کو کھپاتے تھے۔ اگر معاشرہ کا کوئی شخص اپنی کم علمی یا غلط فہمی کی وجہ سے ۸۰؍ فیصد اساتذہ کو مسترد کرتا ہے تب بھی اُس پر لازم ہے کہ ۲۰؍ فیصد کی قدر کرے اور تمام ۱۰۰؍ فیصد کی تحقیر سے باز رہے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ جب تک ایک بھی معلم اپنی خدمات کو ایمانداری سے انجام دے رہا ہے، تب تک پوری اساتذہ برادری کے خلاف تبصرہ کرنا درست نہیں۔
بلاشبہ، شعبۂ تدریس میں کئی ایسے رجحانات در آئے ہیں جن کے ذریعہ اساتذہ خود ہی ناقدری مول لیتے ہیں مگر جدوجہد ان رجحانات کے خلاف ہو، اساتذہ کے خلاف نہیں۔ جب ایک شخص پیشہ ٔ معلمی سے وابستہ ہوتا ہے تو معاشرہ کا فرض ہے کہ اُس پیشے کی قدر کرتے ہوئے اُس شخص کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے خواہ وہ اُس قابل نہ ہو۔ کوئی افسر بدعنوان ہو تب بھی لوگ اسکے ساتھ عزت سے پیش آتے ہیں یا نہیں ؟ پھر اُستاد کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے؟ اگر سماج یہ توقع کرتا ہے کہ تمام اساتذہ لائق قدر ہوجائیں تو یہ کام آسان ہوجائیگا اگر سماج اُن کی قدر میں پہل کرے۔ یوم اساتذہ اسی پہل کی دعوت دیتا ہے۔ آئیے آج ہم کم از کم ایک مدرس کو مبارکباد پیش کریں۔ اس میں دینی مدارس کے معلموں کو بھی شامل کیا جائے۔