ہندوستان جہاں کسان کو ’انیہ داتا‘ اور بھگوان کا درجہ دیا جاتا ہے ۲۰۲۱ء میں ۶ء۸۸؍ کروڑ ٹن اور ۲۰۲۲ء میں ۷ء۸۰؍ کروڑ ٹن کھانا برباد ہوا۔ عام حالات میں بھی ۷۴ء۱؍ فیصد ہندوستانیوں کو غذائیت سے بھرپور غذا نہیں ملتی۔
EPAPER
Updated: April 19, 2024, 1:40 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
ہندوستان جہاں کسان کو ’انیہ داتا‘ اور بھگوان کا درجہ دیا جاتا ہے ۲۰۲۱ء میں ۶ء۸۸؍ کروڑ ٹن اور ۲۰۲۲ء میں ۷ء۸۰؍ کروڑ ٹن کھانا برباد ہوا۔ عام حالات میں بھی ۷۴ء۱؍ فیصد ہندوستانیوں کو غذائیت سے بھرپور غذا نہیں ملتی۔
ہمارے والدین نے ہمیں تاکید کی اور اب ہم اپنے بچوں کو تاکید کرتے رہتے ہیں کہ پلیٹ میں اتنا ہی کھانا نکالو جتنا کھا سکتے ہو تاکہ پلیٹوں میں جوٹھا بچے نہ خراب ہو اس کے باوجود جوٹھا چھوڑنے اور کوڑے میں پھینکنے کی عادت عام ہے۔ اقوام متحدہ کی ’’فوڈ ویسٹ انڈیکس ۲۰۲۴ء‘‘ رپورٹ حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوتوں اور سیر سپاٹوں میں تو جو کھانا ضائع ہوتا ہے، ہوتا ہی ہے سب سے زیادہ کھانا گھروں میں ضائع ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک دن میں دنیا والے جوٹھا یا باسی سمجھ کر جتنا کھانا پھینک دیتے ہیں اس سے سو کروڑ لوگوں کا پیٹ بھر سکتا ہے۔ جتنے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ان کی الگ کہانی ہے۔ میری آنکھوں میں ایک منظر گھوم رہا ہے۔ زیادہ دن نہیں ہوئے میں گھر سے نیچے سڑک پر آیا تو دیکھا کہ میلے کچیلے مگر پینٹ، شرٹ میں ایک پریشاں حال شخص سڑک پر پڑے کوڑے میں پڑے کھانے سے اپنی بھوک مٹا رہا ہے اور چند لوگ ناک پر انگلی دھرے اس درد ناک منظر کو دیکھ رہے ہیں ۔ میری جیب میں اتنے روپے تھے کہ میں اس کو ایک وقت کا کھانا کھلا سکتا تھا مگر میں یہ منظر دیکھ کر اس درجہ حواس باختہ ہوا کہ کچھ بول ہی نہ سکا۔ آج بھی جب وہ منظر آنکھوں میں گھومتا ہے تو خود کو ملامت کرتا ہوں ۔
جن ملکوں میں کھانوں کی بربادی ہوتی ہے ان میں شام، تیونیشیا، مالدیپ، مصر ڈومینین ریپبلک، تنزانیہ، روانڈا، پاکستان اور نائیجیریا جیسے غریب سمجھے جانے والے ممالک ہیں ۔ کئی مسلم ممالک بھی ہیں جہاں دسترخوان پر بیٹھنے اٹھنے کے آداب کا لحاظ رکھا جاتا اور حقوق اللہ کی ادائیگی پر حد درجہ اصرار کیا جاتا ہے۔ کھانا ضائع ہونے سے بچانے والے ملکوں میں روس، فلیپینس، بلغاریہ، بھوٹان اور منگولیا ہیں یعنی کھانا بچانے والے جن ملکوں کا نام لیا جاتا ہے ان میں روس کے علاوہ کوئی ملک نہیں ہے جو تمدن دنیا کی قیادت کرنے والوں میں شامل ہو۔ ہندوستان جہاں کسان کو ’انیہ داتا‘ اور بھگوان کا درجہ دیا جاتا ہے ۲۰۲۱ء میں ۶ء۸۸؍ کروڑ ٹن اور ۲۰۲۲ء میں ۷ء۸۰؍ کروڑ ٹن کھانا برباد ہوا۔ عام حالات میں بھی ۷۴ء۱؍ فیصد ہندوستانیوں کو غذائیت سے بھرپور غذا نہیں ملتی۔ دنیا بھر میں ایسے لوگ ۸۳؍ کروڑ ہیں جو بھکمری کا شکار ہیں ۔ ۷۸؍ کروڑ لوگ خالی پیٹ سونے کو مجبور ہیں ۔ کھانے کی بربادی کی جو وجوہ سامنے آئی ہیں ان میں سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ لوگ آن لائن فوڈ ڈیلیوری ایپ سے غیر ضروری خریداری کرتے ہیں ۔ صرف ۲۱؍ ملکوں میں کھانوں کی بربادی روکنے کے لئے قانون بنائے گئے ہیں ۔ جہاں گرمی زیادہ ہے وہاں کھانا زیادہ مقدار میں پھینکا جاتا ہے۔ ۲۰۲۲ء میں ۱۰۵؍ کروڑ ٹن کھانا برباد ہوا۔ ان میں ۶۳ء۱؍ کروڑ ٹن وہ کھانا تھا جو گھروں میں برباد ہوا۔ خراب ہونے والے کھانوں میں ۲۰؍ فیصد کو کوڑا کرکٹ میں پھینکا گیا یعنی کھانوں کو بچانے کی تدبیر کی گئی نہ بچ رہے والے کھانوں کے صحیح استعمال کی کوشش کی گئی۔
یہ دنیا ہے یہاں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں ۔ ایسے بھی ہیں جو روزی یا روٹی حاصل کرنے کے لئے جھوٹی کہانیاں گڑھتے ہیں ۔ عزت نفس کا سودا کرتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو مختلف بہانوں سے لوگوں کی ضیافت کرتے ہیں ۔ اپنے اور اپنے ماتحتوں کے کھانوں میں امتیاز نہیں کرتے جو خود کھاتے ہیں وہی اپنے ماتحت اور سوالی کو بھی کھلاتے ہیں ۔ خانقاہوں میں لنگر جاری ہونے اور مختلف موقعوں پر دعوت عام دیئے جانے کا بھی یہی مقصد ہوا کرتا تھا کہ کوئی بھوکا نہ رہے مگر اب ایسا کرنا سخاوت و امارت کا ڈھنڈورا پیٹنا ہے۔
کھانوں کو برباد ہونے سے بچانے کی جو تدابیر کارگر ہوسکتی ہیں اور جنہیں اختیار کرنا بہت مشکل بھی نہیں ہے، یہ ہوسکتی ہیں :
٭ آپ گھر میں کھانا پکا رہے ہیں یا سوشل میڈیا ٹریڈس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فاسٹ فوڈ خرید رہے ہیں دونوں صورتوں میں کھانا اتنا ہی ہو جتنی ضرورت ہے۔
٭ بچے ہوئے کھانے کا صحیح استعمال کریں ۔
٭ صحیح استعمال کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو کھانا آپ اپنے لئے پسند نہیں کرتے یا جو کھانا کھانے کے لائق نہیں رہا اس کو کسی پڑوسی یا رشتہ دار کو بھیج دیں ۔ ایسا کرنا اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ یہ تدابیر اختیار کرکے برباد ہونے والے کھانوں میں سے ۷۰؍ فیصد کو بچایا جاسکتا ہے۔ کنجوسی اور کفایت شعاری میں عام طور سے لوگ فرق نہیں سمجھتے۔ کفایت شعاری اختیار کی جائے یا ضرورت کی اشیاء کا جس میں کھانے پینے کی چیزیں بھی شامل ہیں صحیح استعمال سیکھ لیا جائے تو اپنا کھانا کم کئے بغیر بہتوں کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے۔ یہی حکم بھی ہے۔ جب میں ’شرف محنت و کفالت‘ تصنیف کر رہا تھا کئی احادیث کے بارے میں مولانا تقی امینی اور دوسرے علماء سے استفسار کرنا پڑا کہ مسلم معاشرے میں خیر و برکت کے حصول کے کئی غیر مسنون طریقے بھی رائج ہیں مگر ان احکام کی پابندی میں بہت سستی اور غفلت برتی جاتی ہے جن کی سخت تاکید ہے مثلاً جو شخص اس حال میں رات گزارےکہ وہ تو شکم سیر ہو مگر اس کا پڑوسی بھوکا ہو اور وہ اس کے بھوکے ہونے کا علم بھی رکھتا ہو تو وہ مومن نہیں ہے۔
تجربے میں ہے کہ زیادہ تر تحائف صاحب حیثیت لوگوں کو یا ان کو دیئے جاتے ہیں جن سے کوئی کام ہو۔ مَیں مولوی، مفتی نہیں اس لئے فتویٰ نہیں دے سکتا مگر اپنے دل اور ضمیر کی آواز پر یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ایسے تمام تحفے رشوت کی قسم سے ہیں ، ان کو دینے اور لینے سے بچنا چاہئے۔ غیرت و خودداری اور کفالت و خیر خواہی کا بھی بعض لوگ غلط مفہوم اخذ کرتے ہیں ۔ خانقاہ کاظمیہ کاکوری کے بزرگ کہا کرتے تھے کہ ’’باسی بچے کتا کھائے۔‘‘ مریدوں میں سے ایک کی بیوی روتے پیٹتے آئی کہ اسکے شوہر گھر میں جو ہوتا ہے غروب آفتاب سے پہلے تقسیم کر دیتے ہیں جس سے گھر والوں کیلئے کچھ نہیں رہ پاتا، اس وقت کے صاحب سجادہ نے سنا تو اسی بات کو دوسرے انداز میں کہا۔ مقصد یہ باور کرانا تھا کہ اس نیت سے بچت کرنا کہ کسی ضرورتمند یا ذی روح کو فائدہ پہنچے، سب کچھ فوراً خرچ کر دینے سے بہتر ہے۔ بدلی ہوئی شکل میں جملہ یہ تھا، ’’باسی بچے اور کتا کھائے۔‘‘ اگر ہمارے معاشرہ میں ہمارے دین کی تعلیمات عملاً رائج ہوتیں تو اقوام متحدہ کی رپورٹ میں درج ہوتا کہ مسلمان بھی کھانوں کو برباد ہونے سے بچاتے اور بچے ہوئے کھانوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں ۔ مَیں تو محسوس کرتا ہوں کہ مسلم معاشرہ میں بھیک مانگنے والوں کی بھی تعداد بڑھ رہی ہے اور استحصال کرنے والوں کی بھی، جبکہ دونوں غلط ہے۔ چونکہ چندہ یہی دیتے ہیں بھیڑ بھی انہیں کے در پر ہوتی ہے۔