تاریخ کربلا کا ہر جزو یہ اعلان کرتا ہے کہ اس نظام فکر کی اساس ان اقدار پر قائم ہے جو انسان کی ذات کو اعلیٰ صفات کا حامل بناتی ہیں۔
EPAPER
Updated: July 17, 2024, 9:46 AM IST | jamal rizvi | Mumbai
تاریخ کربلا کا ہر جزو یہ اعلان کرتا ہے کہ اس نظام فکر کی اساس ان اقدار پر قائم ہے جو انسان کی ذات کو اعلیٰ صفات کا حامل بناتی ہیں۔
حسینؑ کسی ایک شخص یا شخصیت کا نام نہیں بلکہ اس جگر گوشہ ٔ رسول ؐ کوایک ایسے نظام فکر کے محور کی حیثیت حاصل ہے جو انسانیت کی بقا کا ضامن ہے۔ انسانی تاریخ کے اوراق پر درج مختلف واقعات کے درمیان واقعۂ کربلا واحد ایسا واقعہ ہے جس کی تاثیر میں گزران وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ہر سال محرم کے ایام میں اس واقعہ کی یاد منائی جاتی ہے اور شہادت حسینؑ کی یاد منانے کا یہ عمل مذہب و مسلک کے امتیازات سے بالاتر ہوتا ہے۔بلاشبہ یہ شہادت حسینؑ کا اعجاز ہی ہے کہ تہذیب و تمدن اور اعتقاد کی سطح پر ایک دوسرے سے مختلف افراد اس عمل میں اتحاد اور یکسانیت کی مثال بن جاتے ہیں۔اور ایسا کیوں نہ ہو ،کہ واقعہ ٔ کربلا سے امن و اتحاد اورانسانی فلاح کا جو تصور وابستہ ہے اس نے ہر دور میںجادہ ٔ انسانیت کی جانب نوع انساں کی ایسی رہنمائی کی جو اس کے افضل و اشرف ہونے کو دوام وثبات عطا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس نظام فکر کو امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب و انصار نے جاوداں بنا دیا اس کے وہ کیا اوصاف ہیں جن پر مرور ایام کی گرد اثرا نداز نہیں ہوتی؟
تاریخ کربلا کا ہر جزو یہ اعلان کرتا ہے کہ اس نظام فکر کی اساس ان اقدار پر قائم ہے جو انسان کی ذات کو اعلیٰ صفات کا حامل بناتی ہیں۔ امام حسینؑ نے اپنے قول و عمل سے ان صفات کو اس قدر استحکام عطا کر دیا کہ رہتی دنیا تک حق و صداقت کی فضیلت پر کسی باطل قوت کو غلبہ نہیں حاصل ہو سکتا۔یزید کے طلب بیعت پر انکار کرتے ہوئے امام حسینؑ نے جو تاریخی جواب دیا تھا وہ یہ واضح کرتا ہے کہ امام کی نظروں میں ان تمام زمانوں کے آثار و احوال روشن تھے جن سے گزر کر کاروان انسانی اپنی منزل آخر سے ہمکنار ہوگا۔ انھوں نے یزید کے مطالبہ ٔ بیعت کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ ـ ’مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت کبھی نہیں کر سکتا۔‘ امام حسین کا یہ جواب واقعہ ٔ کربلاکو ان آفاقی رنگوں سے مزین کرتا ہے جو زماں و مکاں کی حدود سے بالاتر ہیں۔ اس جواب نے یہ بھی واضح کردیا کہ انسانی تاریخ کے کسی بھی دور میں جب یزیدی افکار تخت و تاج کے زعم میں حقانیت اور انسانیت کو مغلوب کرنے کی کوشش کریں گے تو حسینیت پر عمل پیرا افراد اپنے عزم و عمل سے اس کوشش کو ناکام بنا دیں گے۔اس حیات ارضی کو کامیاب و کامران بنانے کے لئے امام حسین ؑنے سرزمین کربلا پر جس نظام فکر کی بنیاد رکھی تھی اس کی معنویت اور اہمیت ہر دور میں قائم رہے گی ۔
عصر حاضر میں انسانی زندگی اتنے پیچیدہ مراحل سے گزر رہی ہے کہ اس میں راہ حق پر ثابت قدم رہنا ایک سخت امتحان بن گیا ہے۔ انسان نے اپنی ذہانت اور ذکاوت کی مدد سے مادی ترقی کی ان منزلوں کو سر کر لیا ہے جو اس کے لئے آسائش و آسودگی کے اسباب مہیا کرنے میں معاونت کرتی ہیں۔ اس ترقی سے یکسر کنارہ کشی اختیار کرکے زندگی گزارنا ممکن نہیں لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب ترقی کا یہ خمار اخلاقی و اقداری سطح پر انسان کو نحیف و لاغر بنا دیتا ہے ۔یہی وہ موقع ہوتا ہے جب حسینی نظام فکر اسے سہارا دیتا ہے تاکہ وہ اس کشمکش حیات سے اپنی ذات کو محفوظ رکھتے ہوئے جادہ ٔ حق پر آگے بڑھتا رہے۔ اس سفر کے مختلف مراحل پر اسے ایسی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے جو نفسیاتی اور جذباتی طور پر اس کے عزم سفر کو متزلزل کرتی ہیں۔ کبھی اس کی فکر و شعور اسے حق و صداقت سے انحراف کی ترغیب دیتی ہے، کبھی اس کے اعزا و اقربا راہ حق پر اس کے عزم سفر کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں اور کبھی اس کے سماج کی وہ مقتدر شخصیات عرفان حق کے مرحلے کو پیچیدہ بناتی ہیں جن کو دنیوی جاہ و حشم تو حاصل ہے لیکن اس جاہ و حشم میں انسانیت نوازی کا کوئی ایسا عنصر نہیں شامل ہوتا جو امن و اتحاد کے رجحان کو تقویت عطا کر سکے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ۱۰؍ محرم سن ۶۱ھ کے بعد سے اب تک فلک پر محرم کا چاند نمودار ہوتے ہی فضاؤں میں یاحسین، یا حسین کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں، دوسری طرف حقانیت و صداقت کا پیروکار کوئی ایسا شخص نہیں جو یزید کا نام تک لینا گوارا کرے۔ یا حسینؑ کی یہ صدائیں دراصل اسی نظام فکر کی فتح کا اعلان ہیں جسے امام حسینؑ نے سرزمین کربلا پر اس حسن التزام کے ساتھ ترتیب دیا کہ اس کی پیروی کرنے والا فرد یا سماج کبھی بھی باطل قوت کے روبرو اس طرح سپر انداز نہیں ہو سکتا جس سے حق و انصاف کی بقا معرض خطر میں پڑ جائے۔ اس نظام فکر کا پیروکار اپنی جان سے تو گزر سکتا ہے لیکن باطل قوتوں کو یہ موقع نہیں فراہم کر سکتا کہ وہ ان اقدار کو پامال کر سکیں جن پر انسانیت کی بقا کا دارو مدار ہے۔
حق و صداقت کی بقا کا یہ جذبہ کسی ایک مذہب یا مسلک کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ جذبہ ہراس انسان کے دل میں موجزن ہو سکتا ہے جو شہادتِ حسینی میں مضمر اس فلسفہ ٔ حیات کا عرفان حاصل کر لے جس میں انسانیت کو ہر شے پر تقدم حاصل ہے۔
حسینی فکر نوع انسانی کو واضح طور پر یہی پیغام دیتی ہے کہ جب انسانیت پر ظالم و جابر قوتوں کا جبر بڑھنے لگے تو انسانیت کی طرفداری میں صرف زبانی اظہار ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے کھل کر میدان میں آنا پڑتا ہے۔ اس عظیم و مقدس مقصد کی حفاظت کیلئے اگر وطن چھوڑنا پڑے تو قدم پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے اور وہ وطن جو دنیا کے دیگر خطوں سے زیادہ شرف و مرتبہ رکھتا ہو، جس وطن کی آغوش میں ناناؐ کی لحد اور ماںؓ کا مزار ہو، جس مدینہ کے گلی کوچوں سے اب بھی پیغمبرؐ کے انفاس الصادقہ کی خوشبو آتی ہو،جب کوئی عظیم اور مقدس مقصد مرکز نگاہ بن جائے تو ایسی جاں فزا خوشبو سے دامن چھڑا کر ریگ زار کربلا میں پناہ لینا تو گوارا ہو سکتا ہے لیکن حق و صداقت سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔
اما م حسینؑ نے اپنے اصحاب و انصار کے ہمراہ راہ حق میں جو قربانی دی اس کی متعدد معنوی جہات میں ایک نمایاں جہت یہ بھی ہے کہ حسینی نظام فکر کو اگر حرز جاں بنا لیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت حق و صداقت پر غلبہ نہیں حاصل کر سکتی۔ اس نظام فکر کو مشعل راہ بنا لینے والا انسانی کارواں ہمیشہ فتح مندی سے ہمکنار ہوتا ہے اور اس کا اقبال ہمیشہ بلند رہتا ہے۔
اِس حقیقت کو شہادت حسینؑ کے بعد خانوادہٗ عصمت و طہارت کی پروردہ ان مخدرات نے بھی ثابت کردیا جنہوں نے جاں سوز اذیتوں کو برداشت کرتے ہوئے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کا سفر انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں طے کیا لیکن اس نظام فکر پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جسے امام حسینؑ اور ان کے اصحاب و انصار نے اپنی جان دے کر استحکام عطا کیا تھا۔ اس نظام فکر نے امام حسینؑ کو انسانیت کے چرخ کا ایسا نیر تاباں بنادیا ہے جس کی ضیا تا قیامت قائم و دائم رہے گی۔ یہ ضیا، حق و صداقت کے حامی فرد اور سماج کی راہوں کو نور عرفان سے منورکرتی رہے گی تاکہ انسانی کارواں حقیقی کامیابی و کامرانی کی جانب مسلسل پیش رفت کرتا رہے۔