Inquilab Logo Happiest Places to Work

حافظے کو کمزور بنانے والے عناصر کو پہچانیں

Updated: January 31, 2021, 9:57 PM IST | Mubarak Kapdi

کووِڈ ۱۹؍ کی وبا سے عالمی سطح پر سارے نظام زیر و زبر ہوچکے ہیں۔ معاشرے کے بڑے لوگ قوتِ فیصلہ، سوجھ بوجھ اور فکر و تجزیہ کی صلاحیت متاثر ہونے کا گلہ کر رہے ہیں لیکن ان سب سے کہیں زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوان حافظے کی کمزوری کی شکایت کر رہے ہیں

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر۔ تصویر :آئی این این

ہر ہولناک وبا چند نفسیاتی بیماریاں بھی اپنے ساتھ لاتی ہے، کورونا وائرس اورسال بھر کے لاک ڈائون کے باعث انسانی اعصاب خصوصاً نوجوانوں کا بھی حافظہ متاثر ہورہا ہے۔ حافظے میں کمزوری پیدا ہونے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں البتہ کووِڈ کی وجہ سے اِن پیچیدگیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کے اسباب و حل کا جائزہ لیتے ہیں۔  (۱) کووِڈ کی بنا پر آج ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں جن میںلوگوں کے ذہنوں پر وسوسے اور اندیشے غالب ہیں۔ ہر سُو بے یقینی کا ماحول بنتے جارہا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے کام میں ’اگر‘ اور ’مگر‘ سُنائی دے رہے ہیں۔ گھر کا ماحول منفی سوچ سے پُر ہے۔ مثبت سمت میں قدم اُٹھتے ہیں مگر دوسرے ہی لمحے’ آگے کیا؟‘ یہ سوچ کر قدم رُک جاتے ہیں۔ موجودہ وائرس کی وبا ہولناک ہے مگر ایسی نہیں کہ جس سے زندگی پر اوراس کائنات پر ایک فُل اسٹاپ لگ جائے، البتہ ہر بار ، ہر کام کیلئے اور ہر قدم پر اندیشے و تذبذب کا شکار ہوکر زندگی کی رفتار کو یقینی طور پر بریک لگ ہی جائے گا۔ اس طرح ذہن میں کچھ ذخیرہ کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ انسانی ذہن کی استعداد دس ملین گیگا بائیٹس ہے، یعنی اُس میں وہ ساری معلومات سما سکتی ہے جو درجن بھر منزلے کی ایک عمارت میں ، البتہ وَسوَسے اور بے یقینی کے شکار ذہن میں ہر مضمون کے ۱۰/۲۰؍صفحات بھی محفوظ نہیںکئے جاسکتے۔  ٍ (۲)زندگی کا سفر صرف اُس وقت آسان بن جاتا ہے جب ہماری نظر اپنے ہدف یامقصد پر مستقل ٹکی رہے۔ اُس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے آپ کے مقصد یا ہدف کے تئیں آپ کمیٹیڈ ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کا حافظہ آپ کے ساتھ کمیٹیڈ ہوجاتا ہے۔ آپ کے نصب العین کے تئیں آپ کی سنجیدگی سے آپ کا حافظہ ہر پل آپ کا ساتھ دیتا ہے۔ یہاں نوجوانوں سے ایک اہم بات یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ آپ کا ہدف اہم ہے مگر اُس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اُسے حاصل کرنے کیلئے آپ کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں، جب ہدف حق کے راستے پر چل کر حاصل کیا جائے تو دماغ کی کیفیت بڑی خوشگوار ہوجاتی ہے۔ اُس کی یاد رکھنے اور محفوظ رکھنے کی استطاعت کئی گنا پڑھ جاتی ہے۔ کامیابی کے حصول کے راستے اگر غلط ہوں تو ذہن پژ مردگی اور افسردگی کی کیفیت میںرہتا ہے۔ ذہن ڈسٹرب ہونے کی بنا پر حافظہ ساتھ نہیں دیتا۔  (۳)  نوجوانان یادر کھیں کہ حافظہ بہتر کرنا اسلئے ضروری ہے کہ علم حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ لازمی ہے، کیوں ؟ اسلئے کہ علم کا حصول ربِّ کائنات کو پسند ہے اسی لئے اُس نے اپنی آخری کتاب میں انسانوں کو یہ دعا سکھائی ’ اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما‘ یہ حکم ربّانی علم حاصل کرنے ، اُسے محفوظ کرنے اور اُس کا صحیح استعمال کرنے پر ہر انسان کو آمادہ کرتا ہے۔   (۴) جب بھی کوئی شخص دوسروں سے بہت زیادہ توقع رکھتا ہے بلکہ اُس کے لگ بھگ تمام معاملات میں دوسروں سے اُمّید لگائے رہتا ہے تب اُس کی زندگی کے سارے ضابطے و اُصول ختم ہوجاتے ہیں۔ یادداشت و حافظے پر اس کا براہِ راست اثر ہوجاتا ہے۔ جب اپنا ذہن کسی دوسرے کے یہاں لگ بھگ گِروی رکھا ہوا ہو، تب حافظہ بھی دوسروں کے احکامات ہی قبول کرتا ہے۔  (۵)کوئی شخص جب قوانین فطرت سے انحراف کرتا ہے، تب وہ ذہنی انتشار کاشکار ہوجاتاہے۔ اسی بنا پر وہ زندگی کے روشن حقائق کو بھی قبول نہیں کرتا۔ کائنات کی ایک سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہاں دن کے ساتھ رات اور دھوپ کے ساتھ چھائوں جُڑے رہتے ہیں۔ صرف دن اور صرف دھوپ آخر کیسے ممکن ہے؟ انسان جب آسانی ہی آسانی چاہتا ہے تو چھوٹی سی مشکل بھی اُس کو غیر متوقع ہوجاتی ہے اور ہرمشکل پر وہ صرف بڑبڑاہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں حافظے کے سارے خلیات ڈسٹرب ہوجاتے ہیں۔ پھر آپ کتنی ہی اچھی باتیں ، کتنے ہی نفیس طریقے سے حافظے کی تجوری میں محفوظ کرنا چاہیں، وہ نہیں ہوپائیں گی کیوں کہ آپ فطرت کے اٹل اُصولوں کے خلاف توقع نہیں رکھ سکتے۔ کچھ لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی مشکلات کو ہمیشہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دُکھ، عتاب، عذاب، غم، مایوسی، افسردگی، یاسیت، قنوطیت، بے بسی، بے کسی مجبوری، لاچاری اور کسمپرسی وغیرہ سب کے نام تبدیل کرکے اُنھیں صرف ایک نام دیجئے ’چیلنج‘ ۔ جی ہاں اگر انھیں آپ چیلنج یا ایک ’امتحان‘ سمجھ لیں تو آپ مایوسی، فرسٹریشن یا ڈِپریشن کا شکار نہیں ہوں گے۔ آپ کے ذہن و حافظے کے سارے دروازے (اور کھڑکیاں) خود بخود کھُل جائیں گی جب ہم پر یہ حقائق آشکار ہوجائیں گے کہ ہم تو معمولی انسان ہیں، ربِّ کائنات نے پیغمبروں کا بھی امتحان لیا ہے جب حضرت محمدؐ پر طائف میں پتھر برسائے گئے، حضرت یوسف ؑ کو کنویں میںڈالا گیا، حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں اور حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ میں۔ (۶)زندگی میں کچھ چیزیں نوشتۂ دیوار ہوتی ہیں مگر ہم اُنھیں پڑھ نہیں پاتے یا پھر اُن سے آنکھیں چُراتے ہیں۔ وہ باتیں ہمارے ذہن پر نقش کیسے ہوجائیں گی جبکہ وہ سب پڑھنے کی بصارت ہی ہم میں نہیں ہے؟ کچھ تحریریں بین السطور ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں اکثر طلبہ صرف سطحی طو رپر نصابی کتابیںپڑھتے ہیں، بین السطور سمجھتے بھی نہیں۔ اس بنا پر زندگی کے اسباق ذہن نشین نہیں ہوپاتے۔ ہمارے نوجوانان اب یہ جان لیں کہ کریئر اور کورس کی پڑھائی ہو یا زندگی کا مطالعہ، سب سے اہم ہے ارتکاز یعنی پڑھائی کرتے وقت آپ کی توجہ کا ایک جگہ پر مرکوز ہونا۔ ارتکاز نہ ہوتو حافظے کی کمزوری سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ ارتکاز کا مطلب کیا ہے؟ ہم اس کیلئے ایک مثال دینا چاہیں گے۔ دوستو! آپ نے سائنس کی تجربہ گاہ میںمحدّب عدسہ دیکھا ہوگا، محدّب عدسے کی خصوصی یہ ہوتی ہے کہ اگر اُسے سورج کی روشنی کے نیچے پکڑا جائے اور اُس کے نیچے کاغذ کا ایک ٹکڑا رکھاجائے تو وہ کاغذ جل اُٹھتا ہے۔ اب مکمل بات سُن لیجئے اُس محدّب عدسے کو سورج کی روشنی کے نیچے ایک خاص فاصلے پر پکڑا جائے تبھی وہ جلے گا۔ وہ خاص فاصلہ اگر نہیں رہا تو محدّب عدسے کو کتنی بھی دیر تک پکڑا جائے تو کاغذ پر اُس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ دوستو! اِسے کہتے ہیں ارتکاز یا توجہ کو مرکوز کرنا۔ اگر آپ کا ذہن آپ کی کتاب ، اُس پر لکھی تحریر ، اُس کے نفس مضمون و مفہوم پر مرکوز ہو، وہ یہاں وہاں نہ بھٹکے تب ہی وہ آپ کے ذہن پر دائمی اثر کرجائے گا۔ معلوم یہ ہوا کہ پڑھنے کے تین مرحلے ہیں، پڑھنا، توجہ دینا اور ارتکاز۔ بات بنتی ہے صرف ارتکاز یا فوکس کرنے سے۔ اگر ارتکاز نہیں ہے تو۲؍ کا پہاڑہ بھی ۱۰؍ مرتبہ کوشش کے باوجود( یاد تو رہے گا مگر) ذہن نشین نہیں ہوگا۔ (۷) حافظے کو مضبوط بنانے کیلئے آپ کو ربط پیدا کرنے والا طریقہ بھی سود مند ثابت ہوتاہے۔ کسی بھی بات ، واقعہ یا ترتیب کو یاد رکھنے کیلئے اُس سے مماثلت رکھنے والے کسی واقعہ کو یاد رکھا جائے اُس سے ذہن کے اعصاب پر آسانی پیدا ہوجاتی ہے اور یہ آسانی حافظے کی استطاعت میں اضافہ کرتا ہے۔ ہم اس کی ایک مثال دینا چاہیں گے۔اسکولی بچّوں کویہ تو یاد رہتا ہے کہ پنڈت نہرو کس روز (۱۴؍نومبر کو) پیدا ہوئے تھے کیوںکہ وہ دن اس ملک میں یومِ اطفال کے طور پر منایا جاتاہے البتہ اکثر بچّوں کو سال پیدائش یاد نہیں رہتا۔  اب اُس کیلئے یہ یادرکھنا چاہئے کہ مولانا آزاد کس سال پیدا ہوئے تھے، وہ آسان ہے کیونکہ اُس سال میں تین بار ۸؍کا عدد ہے یعنی ۱۸۸۸ء۔ پنڈت نہرو اُن سے ایک سال چھوٹے تھے یعنی وہ۱۸۸۹ء میںپیدا ہوئے، یا مولانا شبلی کس سال پیدا ہوئے تھے اور اُن کا انتقال کب ہوا؟ یاد یہ رکھئے کہ جس سال (۱۸۵۷ء) بھارت کی پہلی جنگِ آزادی لڑی اُس سال مولانا شبلی پیدا ہوئے اور جس سال (۱۹۱۴ء) پہلی جنگِ عظیم چھڑی اُس سال مولانا شبلی کا انتقال ہوا۔ کئی ایسے واقعات جو منطقی طریقے سے یاد نہیں رہتے، اُنھیں ربط پیدا کرنے کے طریقے سے بآسانی ذہن نشین کیا جاسکتاہے۔  یہ ہے پورا معاملہ حافظے کے ضمن میں۔ کووِڈ ۱۹؍بلاشبہ ایک بڑا طاقتور وائرس ہے جس نے ۱۳؍بے حد ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کو چاروں شانے چِت کردیا لہٰذا بگڑتا ہوا گھر کا بجٹ اور اسراف کی ہماری پُرانی عادتیں بھی براہِ راست ہمارے حافظے پر اثر انداز ہورہی ہیں کیونکہ خالی جیب کے بوجھ کے ساتھ زندگی کی شاہراہ پر چلنا دشوار ہوجاتا ہے۔ کفایت شعاری، صبر ، بردباری اور دُوراندیشی اس کاعلاج ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK