• Sat, 21 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ!‘‘

Updated: September 21, 2024, 10:01 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

کسی مصیبت کے وقت میں، جیسے کووڈ کا دور، لوگوں کی مدد کرنا ایک بات ہے اور اجتماعی مصیبت کا دور گزر جانے کے بعد عام دنوں میں لوگوںکی انفرادی تکالیف دور کرنا بالکل دوسری بات۔یہ زیادہ اہم ہے۔

Life has been difficult in all ages. It was difficult even in those days when stones had to be smashed to start a fire.
زندگی ہر دور میں مشکل رہی ہے۔ اُس دور میں بھی مشکل تھی جب آگ جلانے کیلئے پتھروں کو ٹکرانا پڑتا تھا۔

زندگی ہر دور میں مشکل رہی ہے۔ اُس دور میں بھی مشکل تھی جب آگ جلانے کیلئے پتھروں کو ٹکرانا پڑتا تھا۔ اُس وقت بھی مشکل تھی جب ایندھن سے چلنے والی کوئی خود کار سواری نہیں تھی، یا تو جانوروں کی سواری کرنی پڑتی تھی یا پیدل ہی طویل مسافتوں کو طے کرنا پڑتا تھا۔ زندگی تب بھی مشکل ہی تھی جب ضرورتیں کم تھیں مگر وسائل اُن سے بھی کم تھے۔ اور زندگی اب بھی مشکل ہے جب آسانیوں پر آسانیاں ٹوٹی پڑ رہی ہیں مگر ہر آسانی کی قیمت ہے اور ادائیگیٔ قیمت (پیمنٹ) کے طریقوں کو آسان سے آسان تر بنادیا گیا ہے۔
  تکنالوجی مسیحا بن کر وارد ہوئی ہے مگر اس کا استعمال کرنے والے خود عاجز ہیں۔ کہتے ہیں: ’’علاج دردِ دل تم سے مسیحا ہونہیں سکتا، تم اچھا کرنہیں سکتے مَیں اچھا ہو نہیں سکتا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص پریشان ہے خواہ اس کی پریشانی ظاہر ہوجائے یا مخفی رہے۔ جو کم پریشان معلوم ہوتا ہے وہ اپنا غم ظاہر کردے تو اُس کی روداد سننے والا محسوس کرے کہ اُس کا غم تو کوئی غم ہی نہیں۔ آپ نقشہ اُٹھا کر کسی بھی ملک کے حالات کا جائزہ لے لیں، ایک بے کلی، بے کیفی، بے اطمینانی اور اضطراب ہر جگہ دکھائی دے گا۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کس کی زندگی زیادہ دشوار ہے اور کس کی زندگی کم دشوار۔ اس کے باوجود زندگی کیلئے انسان یا انسان کیلئے زندگی اتنی جفاپرور ہوگئی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نالاں ہیں۔ کوئی کسی کی جانب دیکھنے کا روادار نہیں ہے۔ کچھ یہ بھی ہے کہ آج کے دور کا انسان اپنے اطراف حصار کھینچ کر زندگی گزار رہا ہے۔ اُسے اپنی ذات اور اپنے بال بچوں کے علاوہ کسی کی فکر نہیں ہے۔ کچھ مشینی زندگی کا قصور اور کچھ یہ خود غرضی، ان کے آمیزے سے جو تصویر بنتی ہے وہ کینواس پر موجود اُس شبیہ کی طرح ہے جسے فنکار بنانا کچھ چاہتا تھا اور وہ کچھ اور بن گئی ہے۔ اس شبیہ کے بال اُلجھے ہوئے ہیں اور اگر بال نہیں تو ذہن اُلجھا ہوا ہے۔ ذہن ہی نہیں پورا سراپا اُلجھا ہوا ہے۔ مقصد حیات سے عاری بھیڑ ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔ اس بھیڑ میں کچھ کے پاس مقصد حیات ہے تو وہ اُسے فراموش کئے ہوئے ہیں اور کچھ کے پاس مقصد حیات نہیں ہے مگر وہ اپنے طور پر تلاش کرکے مصروف ہوگئے ہیں۔ 
 ایک شخص ہے جو بنگلور کا ’’بیٹ مین‘‘ کہلاتا ہے۔ ۱۷؍ سال  قبل اس نے ایک آن لائن فورم میں شمولیت اختیار کی تھی جس کا وہ فعال رکن تھا۔ ایک رات، وہ ایسے واقعہ سے دوچار ہوا کہ جس میں ایک نوجوان، جس کا تعلق میامی (امریکہ) سے تھا، خود کشی کرنے کے درپے تھا جسے اُس نے ’’لائیو‘‘ کردیا تھا۔ یہ شخص جسے بیٹ مین نام دیا گیا ہے، یہ دیکھ کر دہشت زدہ رہ گیا اور اپنی سی کوششیں کرتا رہا۔ وہ اُن لوگوں میں شامل نہیں ہوا جو خود کشی کے اِس واقعہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ کر محظوظ ہورہے تھے۔ ایک معاصر انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی متعلقہ رپورٹ میں اس طرح درج تھا: Netizens were cheering the suicide۔  بیٹ مین نے میامی پولیس سے رابطہ کی بے پناہ کوشش کی اور بڑی مشکل سے کامیاب ہوا۔ اُس نے دیگر حکام سے بھی رابطہ کیا کہ اِس نوجوان کو جو فخریہ انداز میں ’’لائیو خودکشی‘‘ کررہا ہے، بچائیے مگر میامی کیلئے بنگلور میں دھڑکنے والے دل کے مقدر میں راحت و اطمینان نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد فورم پر لائیو خود کشی کرنے والے نوجوان کی بہن نے پیغام دیا کہ وہ اب اِس دُنیا میں نہیں ہے۔ 
 بیٹ مین نے اخبار مذکور سے کہا کہ ’’اس واقعہ کے بعد مجھے کئی ملکوں کے دردمند لوگوں کے فون آئے جنہوں نے میری کاوشوں کی ستائش کی۔ مَیں نے اُن سے اتنا ہی کہا کہ مَیں نے وہی کیا جو کرسکتا تھا۔‘‘ مگر بیٹ مین کیلئے یہ واقعہ زندگی بدل دینے والا ثابت ہوا۔ بیٹ مین نے اپنی مارکیٹنگ کی ملازمت، جو مہندرا کمپنی میں تھی، ترک کردی اور سماجی خدمت کو شعار بنالیا۔ آج اس کے قائم کردہ ادارے (سینٹ بروسیف فاؤنڈیشن) سے ۸؍ ہزار رضاکار وابستہ ہیں، ۵؍ سو سے زائد رابطہ کار (کوآرڈینیٹر) ہیں اور حیدرآباد، پونے اور چنئی سمیت مختلف شہروں میں اس کی ۱۵؍ شاخیں ہیں جبکہ وہ اکیلا ہی چلا تھا جانب ِ منزل۔ کل، ممکن ہے اس ادارہ کی شاخیں بیرونی ملکوں میں بھی قائم ہوجائیں، بیرونی ملکوں کے افراد بھی اس سے وابستہ ہوجائیں اور دور دور تک اس کی شہرت ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسے بے شمار انعامات ملیں اور پھر وہ وقت آئے جب لوگ ادارہ کو تو یاد رکھیں، ادارہ قائم کرنے والے کو بھول جائیں مگر جب بھی تحقیق کی جائیگی، یقیناً اُس شخص تک پہنچا جائیگا جسے بنگلور کا بیٹ مین تو کہا جاتا ہے مگر اُس کا اصل نام دُشینت دوبے ہے۔ 
 آج دُشینت دوبے کا ادارہ ہر طرح کے مصیبت زدگان کی مدد کرنے میں ہمہ وقت پیش پیش رہتا ہے۔ 
 جیسا کہ ابتداء میں عرض کیا گیا، دورِ حاضر میں ہر شخص پریشان ہے اور پریشانی کی خوبی یہ ہے کہ جب بھی قدر مشترک بنتی ہے راحت کا خود امکان پیدا کرلیتی ہے۔یہی دیکھئے کہ ایک پریشان دوسرے پریشان سے ملتا ہے تو اپنی پریشانی کو کم ہوتا محسوس کرتا ہے۔ یہ آفاقی حقیقت ہے مگر اس دَور کا المیہ یہ ہے کہ اپنے آپ میں جینے والے لوگ اپنی پریشانی کو بھی خود ہی لادے رہتے ہیں اور کسی سے کچھ نہیں کہتے۔ ڈرتے ہیں، کہیں اُن سے زیادہ پریشانی والا شخص نہ مل جائے! اِسی لئے ’’ساتھی ہاتھ بڑھانا‘‘ کے مناظر کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں اور لاکھوں میں کوئی ایک ہوتا ہے جسے اہل بنگلور بیٹ مَین آف بنگلور کے لقب سے نوازتے ہیں۔ 
 یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ خدمت خلق تو اہم ہے مگر اس سے زیادہ اہم ہے اُسے منظم کرنا۔ بہت سے شہروں میں اور شہروں کیا محلوں میں بہت لوگ ملیں گے جو دردمند دل رکھتے ہیں اور دوسروں کی مدد کیلئے دوڑ پڑنے کا مزاج رکھتے ہیں مگر اُن کی کاوشیں انفرادی ہی رہتی ہیں، اجتماعی نہیں ہوپاتیں، مفرد رہتی ہیں منفرد نہیں ہوپاتیں یا مجرد رہتی ہیں منظم نہیں ہوپاتیں۔ دُشینت بھی تنہا کام کرسکتے تھے، لوگوں کی تنہا مدد کرکے تنہا خوش ہوسکتے تھے اور یہ سلسلہ جاری رہتا مگر اُس صورت میں اتنا بڑا ادارہ وجود میں نہ آتا۔  n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK