Inquilab Logo Happiest Places to Work

دلی راحت اعلیٰ مقصد کی خاطر اپنا حصہ ادا کرتے رہنےسےملتی ہے

Updated: March 02, 2025, 1:20 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

جاپان میں بسنے والے ہسپانوی قلمکاروں ’ ہیکٹر گارشیا اور فرانسِسک میرالِس‘ کی مقبول عام کتاب’ اِکی گائی‘ میں طویل اور خوش و خرم زندگی گزارنے والے جاپانی افراد کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں، یہ کتاب اپنے قارئین کو زندگی کا مقصد تلاش کرنے کی دعو ت دیتی ہے۔

AkiGai and his co-authors. Photo: INN.
اکی گائی اور اس کے شریک مصنف۔ تصویر: آئی این این۔

’تم سلامت رہو ہزار برس‘جیسی نیک خواہشات کا اظہار اکثر ہم اپنے اعزہ و اقارب سے کرتے ہیں۔ ہماری تہذیب میں ’ جیتے رہو‘ جیسی دعا اب بھی عام ہے۔ ’زندگی بڑی ہونی چاہئے لمبی نہیں ‘، والی بات گہری ہے، لیکن جب آنند نے بابو موشائے سے یہ فقرہ کہا تو اس کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کی زندگی لمبی بھی ہو اور بڑی بھی۔ ہمارے پیش نظر کتاب ہے، اِکی گائی جو طویل لیکن خوشگوار زندگی کے جاپانی راز افشا کرتی ہے۔ 
عصر حاضر کا ملک الموت، فکر معاش کے ہتھیار سے، روحوں کو قبل از وقت قبض کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے تعلیم یافتہ، کھاتے پیتے شہری طبقے میں بھی ہر شخص پریشان نظر آتا ہے لہٰذا یہ کتاب جب انسانوں کو خوشی، صحت اور طویل عمری کی ترکیبیں پیش کرتے ہوئے ۲۰۱۶ء میں منظر عام پر آئی تو ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ بطور خاص نوجوان اِس کے نسخے خوب خریدتے ہیں۔ کتابوں کی دکان پر ہلکے آسمانی رنگ کا سر ورق اپنی جانب توجہ کھینچتا ہے۔ 
ہیکٹر گارشیا اور فرانسِسک میرالِس مختلف وجوہات سے جاپان جا بسے۔ شوق انھیں وہاں کے ایک جزیرے ’اوکیناوا‘ لے گیا جہاں لوگ طویل عمر تک زندہ رہتے ہیں۔ یہ دونوں وہاں گھومے پھرے۔ لوگوں سے بات چیت کی اور اپنے مشاہدات قلمبند کئے۔ کتاب طویل اور خوش و خرم زندگی گزارنے والے جاپانی افراد کی کہانیاں بیان کرتی ہے۔ ذہنی، جسمانی اور روحانی طور پر صحت مند رہتے ہوئے وہ لوگ زندگی کو بھرپور طریقے سے جیتے ہیں۔ اِکی گائی، جاپانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جینے کیلئے آپ کی اپنی دریافت کردہ وجہ ہے۔ زندگی کا وہ مقصد جس کی خاطر آپ ہر صبح بستر سے جوش و جذبے کے ساتھ اٹھیں۔ 
ذاتی تجربات، سائنسی تحقیق اور گہری بصیرت فراہم کرنے والے انٹرویو، کتاب بیں کو خود اس کی اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرنے کی دعوت دیتےہیں۔ کتاب، مغربی طریقۂ تحقیق اور مشرقی تصورات کو خوبصورتی کے ساتھ جمع کرتی ہے۔ قارئین کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہتری لانے کی طرف راغب کرتی ہے۔ دلکش گرافکس کتاب کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ 
اوکیناوا میں ۱۰۰؍ برسوں سے زیادہ جینے والوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی خطے سے کافی زیادہ ہے۔ وہاں کے معمرترین افراد بھی جسمانی، جذباتی اور عقلی لحاظ سے فعال اور خود مختار ہوتے ہیں۔ اوکیناوا کے باشندوں کی طویل اور صحتمند حیات کا راز ان کی متوازن خوراک، فطرت سے قربت اور آب و ہوا میں مضمر ہے۔ تاہم، ان کی زندگی کو متحرک اور بامقصد بنانے میں بنیادی کردار اِکی گائی کا ہے۔ اِکی گائی ہر فرد کے عقائد، اقدار اور طرزِ زندگی کے مطابق ایک منفرد نصب العین ہوتا ہے۔ ہر انسان کا اِکی گائی اس کی شخصیت کا عکس ہوتا ہے، جو اسے ایک ایسی ذہنی کیفیت میں لے جاتا ہے جہاں اس کا ہر عمل فطری انداز میں، بوجھ کے بجائے خوشی کا احساس دلاتا ہے۔ راقم الحروف نے یہ سمجھا کہ ہم اپنا اِکی گائی چند سوالوں کی مدد سے دریافات کر سکتے ہیں :
مجھے کس کام سے محبت ہے؟ جس میں میری دلچسپی اس قدر گہری ہو کہ مصروف رہتے ہوئے وقت کا احساس نہ رہے۔ 
میں کن کاموں میں مہارت رکھتا ہوں ؟ جہاں میری صلاحیتیں نمایاں ہوں اور میں بہترین کارکردگی دکھا سکوں۔ 
میں ایسا کیا کام کر سکتا ہوں جس کی دنیا کو ضرورت ہے؟ ایسا پیشہ یا سرگرمی جو معاشرے کی ضرورت ہو، جو مفید ہو۔ 
روزگار کیسے حاصل ہو؟مجھے مناسب مالی معاوضہ ملے، تاکہ آپ اپنی بنیادی ضروریات باعزت طریقے سے پوری کر سکوں اور کسی کا محتاج نہ رہوں۔ 
ان چار سوالات کی اہمیت یکساں ہے۔ ان کے جوابات پر عمل سے فرد ایک ایسی کیفیت میں داخل ہوجائیگا جہاں اس کے اعمال خودبخود اور آسانی سے انجام پائیں گے، وقت کا احساس ماند پڑ جائے گا اوروہ کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرے گا۔ یہی وہ سرگرمی ہوگی جو اس شخص کی اِکی گائی کہلائیگی ، وہ وجہ جو ہر صبح اس کو بیدار ہونے پر مجبور کرے گی۔ 
جاپانی حکمت کے اصول بڑے کارآمد ہیں ۔ اوکیناوا کے باشند ے زندگی کی رفتار معتدل رکھتے ہیں، ہر کام کو اس کا وقت دیتے ہیں۔ ہمیشہ متحرک رہتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بامقصد سرگرمیوں اور خدمتِ خلق میں مصروف رہتے ہیں۔ تحصیل علم و ہنر کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ بے عملی جسم و ذہن پر منفی اثر ڈالتی ہے لہٰذا و ہ لوگ جسمانی طور سرگرم اور متحرک رہتے ہیں۔ اوکیناوا کے باشندے چھوٹے چھوٹے گروپ بناتے ہیں۔ مقامی سطح پر ہم خیال لوگوں کی ان غیر رسمی انجمنوں کو ’موائی‘کہا جاتا ہے۔ موائیوں کا آغاز پرانے وقت میں کاشتکاروں کے ذریعے ہوا جہاں وہ کھیتی سے متعلق اپنے تجربات سے سب کو روشناس کراتے اور قحط کے وقتوں میں باہمی مدد کیا کرتے تھے۔ اپنے کام دھندے کے علاوہ دوستانہ گپ شپ میں معقول وقت گزارنا اوکیناوا والوں کا مرغوب مشغلہ ہے۔ ایسے قریبی ساتھیوں کی رفاقت ان کو تازگی و خوشی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ جاپانیوں کے لبوں پر ہروقت مسکرہٹ کھلی رہتی ہے۔ 
غذا اور کھانے کا طریقہ انسان کی صحت اور طوالت عمر پر کافی اثر انداز ہوتے ہیں۔ دسترخوان پر اکثر جاپانی کہاوت ’ہارا ہاچی بُو ‘دہرائی جاتی ہے، جس کے معنی ہیں اپنے پیٹ کو ۸۰؍ فیصد بھرو، یعنی بھوک رکھ کر کھاؤ۔ کھانا پروسنے کا بھی ان کے یہاں ایک دلچسپ طریقہ رائج ہے۔ اشیائے خورد و نوش متعدد چھوٹی چھوٹی پلیٹوں میں ٹیبل پر سجا دی جاتی ہیں۔ نفسیاتی طور پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دسترخواں بھرا بھرا ہے جبکہ مقدار قلیل ہوتی ہے۔ پھر وہ لوگ صحت بخش خوراک کھاتےہیں، جیسے توفو، شکر قند، مچھلی اور سبزیاں۔ اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور غدا اور ورزش ان کی صحت کا توازن برقرار رکھتی ہے۔ 
ذہنی تناؤ کے مضر اثرات پر بھی مصنفین بحث کرتے ہیں ۔ تناؤ کے ساتھ جینے والے جلد بوڑھے نظر آنے لگتے ہیں۔ ایک جدول کے ذریعے قدیم زمانے کے غاروں میں رہنے والے انسانوں اور جدید انسانوں کا بڑا دلچسپ موازنہ کیا گیا ہے۔ پرانے لوگ فکروں سے آزاد تھے جبکہ ہم ہر وقت خطرے کا احساس لئے جیتے ہیں۔ تناؤ کو کوشش کرکے کم کیا جاسکتا ہے۔ کتاب موریٹا تھیراپی کا ذکر کرتی ہے جو ہمیں اپنے احساسات کو قبول کرنے اور منفی جذبات کو اپنے اندر سے دفع کرنے کی تکنیک سکھاتی ہے۔ 
اوکیناوا میں لوگ نیچریعنی بہارستانِ فطرت میں معقول وقت گزاری کرکے ذہنی سکون اور توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ماضی کے دکھ اور مستقبل کےخوف سے آزاد حال کے موجوہ لمحے میں بھرپور جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
کتاب اپنے بہاؤ میں جینے کی بات کرتی ہے اور روزمرہ کے چھوٹے کاموں کے ذریعے اپنے بہاؤ میں بہنے کا درس دیتی ہے۔ سب سے زیادہ خوش انسان وہ نہیں ہوتے جو بہت کچھ حاصل کرلیتے ہیں بلکہ وہ ہوتے ہیں جو نتیجے کی پروا کئے بغیر اپنے بہاؤ میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا اکی گائی دریافت کر چکے ہوتے ہیں۔ 
کتاب ایک اچھے مقصد سے لکھی گئی مثبت تصنیف ہے۔ جاپانی رازوں کے تجسس میں یہ مختصر کتاب اس مبصر نے بہت کم وقت میں پڑھ لی لیکن اس کو جگہ جگہ یہ محسوس ہوا کہ یہ ساری باتیں ہماری روایتوں میں بھی پہلے سے موجود ہیں۔ جدید دور نے انسان کو جس انداز سے جینے پر مجبور کردیا ہے وہ خود انسانوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کا دشمن ہے۔ پھر کچھ لاعلمی، غفلت اور ہمارے ملّی و قومی رویے غضب ڈھا رہے ہیں۔ شہروں میں دیر رات تک جاگنا اور صبح دیر تک سونا ہماری شناخت کا نمایاں جز بنا ہوا ہے۔ ہماری بستیاں اپنے ساکنان کے چٹورے پن کی بڑھ بڑھ کر گواہی دیتی ہیں۔ تزکیہ نفس بھی ایک تصور ہوا کرتا تھا جو انسانوں میں اعلیٰ اوصاف پیدا کرتا تھا، اب بھلا دیا گیا ہے۔ سچی خوشی کا لطف، متوازن طرزِ زندگی اور اخلاق کی پاسداری کے ذریعے اٹھایا جاسکتا ہے۔ اب وہ حقیقی مسرت، خواہشوں کی الماری میں، کسی دراز میں پڑی ہوئی مِلے تو مِلے۔ رزلٹ اورینٹیڈ کام یعنی نتیجہ خیزی کے پیچھے بھاگنے والے منیجر اور کارپوریٹ روبوٹ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دلی راحت اعلیٰ مقصد کی خاطر اپنا حصہ ادا کرتے رہنےسے حاصل ہوتی ہے۔ اطمینان، منزل کی طرف بڑھنے میں زیادہ ہے۔ ٹارگیٹ کا حصول اس اطمینان کا صرف ایک چھوٹا سا جز ہے۔ کریڈٹ کے تمغے اکثر حرص، حسد اور بے چینی کا سبب بنتے ہیں۔ کتاب ہمیں آئینہ دکھاتی ہے۔ ہمارے پاس بہت کچھ ہے البتہ جو حروفِ دانش جہاں سے بھی ملیں ، لینے میں حرج نہیں۔ اپنی ہی متاع گم گشتہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK