Inquilab Logo

دوست کی اہمیت ، دوستی کا معیاراور اسلامی تعلیمات

Updated: July 22, 2022, 2:15 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کی ہے ۔ زیرنظر سطور میں انسانی زندگی میں دوست کی اہمیت پر دینی نقطۂ نظر سے روشنی ڈالی گئی ہے

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

انسانی رشتوں میں خون کے رشتوں کے علاوہ بلکہ بعض اوقات خونی رشتوں سے بھی زیادہ جس رشتے نے بڑا مقام پایا ہے وہ ہے دوستی۔ کہاجاتا ہے کہ ہمارا بھائی ہمارا بازو ہوتا ہے ،لیکن ہمارا دوست ہمارادل ہوتا ہے کہ جس کو ہم اپنے سارے راز بتاتے ہیںاور جس سے ہم اپنی ہر خوشی اور غم بانٹتے ہیں، جس کو ہم ہر دکھ سکھ کا ساتھی بناتے ہیں۔ کسی حکیم نے کہا تھا کہ دوست ایک چھتری کی طرح ہوتا ہے، جب بھی مسائل اور مشاکل کی بارش ہوتی ہے ہم کو اس کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔  تجربہ اور مشاہدہ بھی یہی بتاتا ہے کہ خوشیوں سے زیادہ غم کے وقت انسان کو اپنے دوست کے کندھے کی ضرورت پڑتی ہے کہ جس پر سر رکھ کر وہ رو بھی سکے اور اسی کندھے کے سہارے اس تیزوتند آندھی میں وہ چل بھی سکے۔ 
ایک انسان کی زندگی میں دوست اور دوستی کی اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام نے بھی دوست کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس سلسلے میں نہایت مفید ہدایات بھی دی ہیں تاکہ انسان اس کے فوائد سے بہرہ ور ہوسکے اور اس کے مضر اثرات سے خود کو بچاسکے ۔ اس لئے کہ دوستی ایک دودھاری تلوار ہے، اگر اس کو مکمل احتیاط کے ساتھ نہ برتا جائے تو فائدے سے زیادہ نقصان  دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اسی لئے اسلام نے اس عظیم نعمت کو کس طرح برتنا ہے اس کو واضح کردیا ہے اور اس سلسلے میں نہایت ہی بسیط تعلیمات بھی ہم کوعطا کردی ہیں ۔ 
انسانی زندگی میں دوستی کی اہمیت
انسان کی زندگی میں دوست کی اہمیت دنیا بنی تب سے قائم و دائم ہے۔ ہر مصیبت میں دوست ایک مضبوط سہارا بن کر انسان کے ساتھ کھڑا رہتا ہے، وہ مشاکل ومصائب کے طوفان سے گھبراکر اپنا دامن بچا کر نکل نہیں جاتا، بلکہ دوست کی جانب آنے والے مصائب کے تیر کو اپنے سینے میں جذب کرکے بھی وہ مسکراتا رہتا ہے۔ امام طبریؒ نے اپنی تفسیر میں یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت علی ؓ نے دوستوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا : اپنے بھائیوں (دوستوں) کو تھامے رکھو! اس لئے کہ وہ دنیا میں کم ہی ملتے ہیں اور آخرت میں بھی کم ہی ہوں گے ۔کیا تم نے اہل جہنم کا(قرآن میں وارد) وہ جملہ نہیں پڑھا:’سو (آج) نہ کوئی ہماری سفارش کرنے والا ہے، اور نہ کوئی گرم جوش دوست ہے۔(سورۃ الشعراء: ۱۰۱۔۱۰۰)  علامہ زمخشریؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سفارش کرنے والوں کے لئے جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے جبکہ دوست کے لئے واحد کا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والے بیشمار مل سکتے ہیں لیکن سچا،پکا، مخلص اور خیر خواہ دوست کم ہی ملتا ہے۔ اور یہ خیر خواہ، مخلص اور نیک دوست جب مل جائے تو اس کی حفاظت کرنا اور اس کو کسی صورت حال میں نہ چھوڑنا انسان کیلئے ضروری ہوجاتا ہے۔ ورنہ قیامت کے دن کئی سارے لوگ اپنے اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھارہے ہوں گے صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے برے دوستوں کی صحبت اختیار کرلی تھی ، اور ان برے دوستوں نے ان کو جہنم کے گڑھے میں پھینک دیا۔ سورۃ الفرقان میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:’’اور جس دن ظالم انسان (حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا، اور کہے گا: کاش میں نے پیغمبر کی ہمراہی اختیار کر لی ہوتی۔ ہائے میری بربادی ! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔میرے پاس نصیحت آچکی تھی، مگر اس (دوست ) نے مجھے بھٹکا دیا۔ (سورۃ الفرقان۲۷ تا ۲۹)
دوست کا دین اپنا دین
دوست کی انسانی زندگی میں اہمیت سمجھنے کے لئے ترمذی شریف کی ایک روایت کافی ہے۔ یہ بات تو ہم جانتے ہیں کہ دین اسلام ہی دنیا  و آخرت میں نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ دین حق ہی ہے کہ جس پر چل کر کامیابی وکامرانی کی منزلیں طے کی جاسکتی ہیں۔  اس دین سے ہٹ جانا دنیا کی بھی تباہی ہے اور آخرت کی بھی۔ ہمارے حبیب حضرت محمد ﷺ نے انسان کے دین کے متعلق کتنی اہم بات ارشاد فرمائی: ’’ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کیسے لوگوں سے دوستی رکھتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جہاں اچھے دوست کی صحبت ہمیں دین سے اور دینداری سے قریب کرسکتی ہے، وہیں برے دوست کی سنگت ہمیں بے دینی کی طرف لے جاتی ہے۔ اسی لئے حدیث کے آخر میں آپﷺ نے خبردار کیا کہ جس سے دوستی کررہے ہو، اس کی جانچ کرلو، دیکھ لو کہ وہ اللہ کا حامی ہے یا اللہ کا باغی ہے۔ عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اگر وہ اللہ کا حامی ہے تو اس کا ساتھ مرتے دم تک نہ چھوڑو، اور اگر وہ اللہ کا باغی ہے تو اس کے قریب بھی نہ پھٹکو۔
دوست کی سچی خیرخواہی ایسی ہوتی ہے
اوپر مذکورہ حدیث شریف میں کی گئی نصیحت کی ایک جیتی جاگتی اور تاقیامت مشعل راہ کے طو ر پر کام کرنے والی مثال حضرت ابوالدرداء ؓ کے ایمان لانے کا واقعہ ہے۔ حضرت ابوالدرداء ؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے درمیان دورجاہلیت سے بڑی گہری دوستی تھی۔جب اللہ عزوجل نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے سینے کو ایمان کے لئے کھول دیا، اور وہ اسلام لے آئے تو اس کے بعد وہ اپنے عزیز دوست حضرت ابوالدرداءؓ کے گھر پر تشریف لے گئے۔ اس وقت تک حضرت ابوالدرداء ؓایمان نہیں لائے تھے۔ وہ گھر پر نہیں تھے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور ایک صحابی محمد بن مسلمہؓ نے ان سارے بتوں کو توڑ دیاجو حضرت ابو الدرداءؓ کے گھر میں موجود تھے، جن کی وہ صبح شام عبادت کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوالدراء ؓ جب لوٹے تو اپنے بتوں کو جمع کرنے لگے۔ اور اپنی بیوی پر سخت غصہ ہوئے کہ تم نے ان دونوں کو ایسا کرنے سے روکا کیوں نہیں۔ وہ بولیں۔ اگر یہ بت نفع کے مالک ہوتے ، یا کسی کو بچانے کے قابل ہوتے تو آج سب سے پہلے وہ خود کو بچاتے۔ یہ سن کر حضرت ابوالدرداءؓ کا دل پسیج گیا، وہ غسل کرکے آپﷺ کے سامنے حاضر ہوئے اور ایمان میں داخل ہوگئے۔ یہ واقعہ ایک دوست کی سچی خیرخواہی کرنے اور دوسرے دوست کی اس خیر خواہی کو سمجھنے اور اس کی قدر کرنے کی واضح مثال ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے اندر اسلام لانے کے بعد جو تڑپ جاگی وہ اپنے جگری دوست کو جہنم کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کی تھی۔ اپنے دوست کو نیکی کی راہ پرلانے کی اسی نیت اور اسی جذبہ کا اگر عشر عشیر بھی ہمیں نصیب ہوجائے تو ہماری معاشرتی خرابیوں کی جڑ کٹ جائے اور چند ہی دنوں میں یہ معاشرہ امن، آشتی، محبت اور بھائی چارگی کا ایک جیتا جاگتا نمونہ بن جائے۔ 
نیک اور بد دوست کی مثال
دوستی میں نیکوکاروں کی دوستی ہمیشہ سے ہی انسان کی زندگی میں ترقی کے لئے ایک نہایت اہم تقاضہ رہی ہے۔ اچھے لوگوں کی دوستی سے انسان کو نفع ضرور پہنچتا ہے، اور اگر  بالفرض ایسا نہ بھی ہو تو کم از کم وہ برائی سے اور نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔ جبکہ اس کے بالکل برعکس برے دوستوں کی سنگت بہر صورت بالواسطہ یا بلا واسطہ نقصاندہ ہی ثابت ہوتی ہے۔ اسی بات کو ایک حدیث شریف میں آپﷺ نے خوشبو فروش اور بھٹی دھونکنے والے کی مثال سے واضح فرمایا: ’’نیک ہم نشین کی مثال مِسک والے کی سی ہے کہ وہ یا تو تجھ کو کچھ دے گا یا تو اس سے مِسک خریدے گا، یا(کم از کم )اس کی خوشبو تجھے ضرور پہنچے گی۔ اور کسی برے ہم نشین کی مثال بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے، یا تو کوئی چنگاری اڑکر تیرا کپڑا جلادے گی، یا (کم ازکم) اس کی بدبو ضرور تجھے پہنچے گی۔‘‘ آج کے دور میں تو یہ بھٹی دھونکنے والے گلی گلی، کوچے کوچے میں پائے جاتے ہیں اور ایسے مضر دوستوں کی بہتات  کی وجہ سے ہمارانوجوان طبقہ دن بہ دن تباہی کی کگار پر آگے ہی کھسکتا جارہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK