• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

طب کی اہمیت اور موجودہ دَور میں اس کو تجارت بنانے کا رویہ

Updated: December 22, 2023, 12:51 PM IST | Tanveerul Qadri Bihari | Mumbai

یہ عام مشاہدہ ہے کہ مریض جتنا بیماری سے پریشان نہیں ہوتا اتنا علاج کے نام پر ہونے والے افعال سے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ طب کو تجارت میں تبدیل کرنا ہے۔

It is from Allah that man is afflicted with disease and from Him the cure for every disease has also been revealed. Photo: INN
انسان کو بیماری کا لاحق ہونا من جانب اللہ ہے اور اسی کی جانب سے ہر بیماری کا علاج بھی نازل ہوا ہے۔ تصویر : آئی این این

دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی گزارنے کے ہر شعبے سے متعلق ہدایت و رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے فقہاء و محدثین نے ہمیں ایسے ایسے اصول دیئے ہیں جن کی روشنی میں ہم کسی بھی زمانے میں پیش آنے والے جدید سے جدید تر مسائل کا حل معلوم کر سکتے ہیں ۔ یہ بھی ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اطاعت و عبادت کیلئے پیدا کیا ہے، اور عبادت صحتمند روح اور تندرست جسم کے ساتھ ہی کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسان صحت مند رہے اور صحت مندی کی طرف لے جانے والے ذرائع طب (The Science of Medicine) سے واقف رہے۔ طب ایک شریف و لطیف فن ہے، جو پہلے انسان کے ساتھ ہی معرضِ وجود میں آگیا تھا۔ انسان کو بیماری کا لاحق ہونا من جانب اللہ ہے اور اسی کی جانب سے ہر بیماری کا علاج بھی نازل ہوا ہے۔ حضرت ابو ہریر?ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں فرمائی جس کی شفا نہ اتاری ہو۔ (البخاری) 
ڈاکٹروں کے لئے بشارت و انعام
 فرمانِ الٰہی کا مفہوم ہے: جس نے کسی ایک جان کو زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔ (المائدہ:۳۲) اس آیت میں ایک جان کی اہمیت کتنی ہے یہ بتائی گئی ہے اور جہاں انسان کی جان بچانےکی بات کی گئی ہے وہیں اس بات کا خیال رکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ علاج میں حرام چیزوں سے اجتناب کیا جائے۔ حدیث نبوی ﷺ میں درج ہے کہ بے شک، اللہ نے بیماری اور دوا کو پیدا فرمایا ہے پس علاج کرنے میں حرام سے بچو۔ (معجم کبیر) یہ انسان کی طاقت میں دے دیا ہے کہ عقل و تجربہ کی روشنی میں دواؤں کو دریافت کرے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھوکے کو کھانا کھلانا، ننگے کو کپڑا پہنانا، معذور کے کام میں ہاتھ بٹانا اور ضرورتمند کی حاجت پوری کرنا یہ سب مخلوق کی خدمت ہے لیکن انسان سب سے زیادہ خدمت کا محتاج اس وقت ہوتا ہے جب وہ مریض ہو۔ بیماری انسان کو اس مقام پر پہنچا دیتی ہے کہ کھانا موجود ہونے کے باوجود وہ کھا نہیں سکتا، ہاتھ پاؤں سلامت ہیں لیکن ایک قدم چل نہیں سکتا۔ انسان تیمارداری اور مددگاروں کے رحم و کرم کا محتاج ہو جاتا ہے۔ اسی لئے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض کی عیادت اور تیمارداری کو باعث اجر قرار دیا ہے۔ فرمانِ رسولؐ ہے کہ جب تک ایک شخص مریض کی عیادت میں رہتا ہے گویا وہ جنت کے باغ میں ہے۔(مسلم )
 اس طرح ڈاکٹر گویا اپنی ڈیوٹی کے پورے وقت اس حدیث شریف کا مصداق ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے۔ اور کون ہے جو انسانوں کے لئے ڈاکٹر اور معالج سے بڑھ کر نافع ہو۔ اس طرح گویا حضور ﷺ کی بارگاہ سے ڈاکٹر کو خیر الناس (بہترین انسان) کا ایوارڈ ملا ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہو سکتا ہے۔ (کنز الاعمال) 
ڈاکٹروں کے اخلاق
ڈاکٹروں میں یہ چند باتیں لازم و ضرور ہونی چاہئیں : تقویٰ، اخلاص، فقہی امور سے واقفیت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام، امانت، حسن اخلاق، مریض سے نرمی و شفقت، مریض کے رازوں کی حفاظت، بدنظری سے پرہیز، تکبر اور بڑے پن سے اجتناب ۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ لوگ آپ (ڈاکٹر) پر اعتماد کرتے ہیں ، اپنی زندگی میں آپ پر بھروسہ کرتے ہیں اور بیماریوں میں آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ آپ کےاسپتال میں بہت سے لوگ آتے ہیں ، وہ آپ کی باتوں پر عمل کرتے ہیں ، آپ اس وقت نہ صرف ایک مریض کے علاج کیلئے ڈاکٹر بلکہ ایک آئیڈیل اور رہنما بھی ہوتے ہیں جو مریضوں کو بتاتے ہیں کہ اس بیماری سے نجات کیسے حاصل کریں ، کیا کریں کیا نہ کریں ۔ ایسے میں آپ کے محبت آمیز الفاظ شفاء کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔ 
ڈاکٹر کو کیسا ہونا چاہئے؟
 ایک ڈاکٹر کی فکر ہمیشہ یہ ہونی چاہئے کہ عوام و معاشرہ صحتمند اور تندرست رہے ۔ اس میں غریبوں کو ہر قسم کی طبی  ایک ڈاکٹر کی فکر ہمیشہ یہ ہونی چاہئے کہ عوام و معاشرہ صحتمند اور تندرست رہے ۔ اس میں غریبوں کو ہر قسم کی طبی سہولیات فراہم کرنے کی چاہ و لگن ہونی چاہئے کیونکہ بعض اوقات بہتوں کے پاس بہتر علاج کے لئے پیسے نہیں ہوتے ۔ حکومت نے ایسے لوگوں کے لئے کئی اسکیموں کا اعلان بھی کیا ہے مگر ناواقفیت کی وجہ سے اس سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے، اِن حالات میں ایک ڈاکٹر کا فرض ہے کہ مریضوں کو ان سرکاری اسکیموں سے آگاہ کرے۔ ڈاکٹر کو ہمیشہ خیر کے پہلو پر عمل کرنا چاہئے اور ہر ایک کی مدد کرنی چاہئے۔ اسے نرم خو اور شائستہ مزاج ہونا چاہئے کیونکہ کوئی بھی مریض اپنی بیماری سے اس وقت تک مایوس نہیں ہوتا جب تک ڈاکٹر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔
ڈاکٹری کے پیشے میں دھوکہ قابل افسوس
 موجودہ دور میں ڈاکٹروں کی فیس مریض کے لئے ناقابل برداشت بوجھ بن گئی ہے۔ پھر فیس کے سلسلے میں بھی ایک نئی روایت یہ قائم کر لی گئی ہے کہ مریض جتنی بار مشورہ کے لئے جائے ہر بار فیس ادا کرے۔ بعض ڈاکٹروں نے آمدنی کے بالواسطہ ذرائع بھی پیدا کر لئے ہیں کہ دوائیں لکھ کر مخصوص و متعین دکانوں سے خریدنے کو کہا جاتا ہے تاکہ ان سے کمیشن مل سکے۔ایک نئی صورتحال یہ بھی ہے کہ جن بیماریوں کا علاج دواؤں کے ذریعے ممکن ہے ان میں بھی آپریشن کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ موٹی رقم مریضوں سے وصول کی جا سکے، خاص کر ولادت کے کیس میں سب سے زیادہ اس طرح کے معاملات سامنے آتے ہیں ۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ مریض کی موت کے باوجود اسے مصنوعی آلہ تنفس پر رکھا جاتا ہے تاکہ بل بڑھتا رہے۔ یہ اور اس طرح کے تمام مبینہ طریقے حددرجہ نا شائستہ ہیں۔ 
 یہ تمام صورتیں اگر مریض کی بھلائی کے جذبہ سے ہوں تب تو اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن افسوس کہ ان سب میں اکثر مقصد کمیشن کا حصول ہوتا ہے جبکہ یہ کمیشن اسلامی نقطہ نظر سے ناجائز ہے، گناہ ہے اور اکثرصورتوں میں یہ آمدنی بھی حرام ہے۔ یہ کمیشن رشوت ہی کی ایک شکل ہے جس کا لینا دینا دونوں تو حرام ہے ہی، اس میں واسطہ بننا بھی حرام ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بہت سے مسلم ڈاکٹر بھی دھڑلے سے اس طرح کے حصولِ مال میں مبتلا ہیں ۔ مسلم ڈاکٹروں کو چاہئے کہ قرآن کے اس ارشاد کو اپنے سامنے رکھیں کہ: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔‘’ (بقرہ:۱۸۸) 
اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کر ہو یا چھین کر ، چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے، یہ سب ممنوع و حرام ہے۔ (احکام القران)
علاج اور خلوص نیت
 نیت المومنین خیر من عملہ یعنی مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ (معجم کبیر) اسی طرح کی ایک حدیث ہے: اچھی نیت بندے کو جنت میں داخل کر دیتی ہے۔ پتہ چلا فرق صرف نیت کا ہے، زاویہ ٔ نگاہ کی تبدیلی کا ہے۔ اگر نیت صرف پیسے کمانے کی ہے، مریض کو تکلیف سے بچانے کی نہیں تو ایسے کا نیکی میں کچھ حصہ نہیں ہاں اگر ڈاکٹر یہ نیت رکھے کہ شفا دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے ہمارا کام مرض کی تشخیص کرنا ہے اور مریض کو اطمینان دلانا ہے تو ایسے کا نیکی میں حصہ بھی ہے اور اس کیلئے خوشخبری بھی ہے۔نبیؐ کریم کا فرمان عالیشان ہے: جس شخص نے کسی مومن کی دنیا کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کر دی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کر دے گا۔ (صحیح مسلم) 
 آخری بات
 ڈاکٹر کو اپنے پیشے کے تئیں مستحکم اور ایماندار ہونا چاہئے اور کبھی بھی لاپروا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کی طرف سے تھوڑی سی غفلت کی وجہ سے کسی کی جان جا سکتی ہے لیکن جب ایک ماہر و حاذق طبیب پوری ذمہ داری سے علاج کرے اس کے بعد اگر نتائج مثبت نہ آئے تو طبیب یعنی ڈاکٹر پر نہ کوئی گناہ ہے نہ کوئی سزا البتہ شدید اور بڑی غلطی کے لئے ڈاکٹر جواب دہ ٹھہرایا جائے گا پھر بھی یہ خیال رہے کہ شفا نہ ہونے پر ڈاکٹر کا مواخذہ نہیں کیا جا سکتا۔
 یہ چند بنیادی باتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ مریض کو سکون پہنچایا جائے لہٰذا ڈاکٹروں کو چاہئے کہ اس معزز و مکرم پیشہ کے تقدس کو برقرار رکھیں اور جو برائیاں در آئی ہیں ان کے خلاف مہم چلائیں تاکہ یہ پیشہ باعث اجر و ثواب بنا رہے اور تجارت بننے سے اِسے بچایا جاسکے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK