Inquilab Logo

ہرحال میں مومن سےذکر ِالٰہی، شکر ِالٰہی، رجوع الی اللہ اورتوبہ و استغفارمطلوب ہے

Updated: August 12, 2022, 1:27 PM IST | Dr. Zafarul Islam Islahi | Mumbai

’’حقیقی کامیابی و اُخروی نجات کی ر ا ہ ہدایت وہی ہے جسے قرآن نے صراط مستقیم سے تعبیر کیا ہے‘‘ کی آخری قسط میں پڑھئے کہ ہدایت ،راہِ حق ا و ر اس پر استقامت کی نعمتیں اللہ ہی کی توفیق سے نصیب ہوتی ہیں

Following the Divine guidance in every matter leads to peace of mind and spiritual peace in the temporary stay of the world. .Picture:INN
زندگی کے ہر معاملے میں ہدایتِ الٰہی کی پیروی دنیا کے عارضی قیام میں سکونِ قلب اور روحانی طمانیت کا سبب بنتی ہے ۔ تصویر:آئی این این

رب العالمین نے شاد کام ہونے والے ا پنے محبوب بندوں کو کتنے عظیم الشان خطاب سے نوازا ہے، یہ جاننے کے لئے سورۃ البیَّنۃ کی آیت۷ ؍پر نظر ڈالیں جس میں انہیں ’ خیر البریۃ ‘ کے لقب سے موسوم کیا گیا ہے ۔ اردو مترجمینِ قرآن نے ان الفاظ کا ترجمہ ’’ بہترین خلائق،سب خَلق سے بہتر،ساری مخلوقات میں افضل و اشرف‘‘ کیا ہے۔ واقعی یہ کتنابڑا اعزاز ہے، جس سے ایمان اور عمل صالح کی پونجی والے ( چاہے وہ دنیوی مال و اسباب کے اعتبار سے مفلس و بے مایہ ہی کیوں نہ ہوں) مشرف کئے گئے ہیں۔کیا اس سے بڑا اور کوئی لقب ہے جس سے ارضی مخلوقات میں کسی کو نوازا گیا ہے؟ اس کے برخلاف جو لوگ ہدایت الٰہی کی راہ سے منہ موڑ لیتے ہیں، کفر و نافرمانی کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور پوری زندگی اپنے آپ کو خواہشات ِنفسانی کا غلام بنا ئے رہتے ہیں انہیں اسی سورہ میں نہ صرف ’شرّ البرّیۃ ‘ (بدترین خلائق) کہا گیا ہے، بلکہ اِس بدترین انجام سے بھی خبر دار کیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم کی آگ میں جھلستے رہیں گے۔ ان سب کے علاوہ اُخروی زندگی میں اس دردناک عذاب سے دوچار ہونے کو انسان کیلئے ’خسران مبین‘ (بالکل کھلے ہوئے یا سب سے بڑے نقصان ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربَّانی ہے:  
’’ کہہ دیجئے،اصل گھاٹے والے تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو گھاٹے میں ڈال دیا۔اچھی طرح سن لو! یہی کھلا ہوا نقصان ہے۔ان پر آگ کی چھتریاں اوپر سے چھائی ہوں گی، اور نیچے سے بھی۔ ‘‘(الزمر:۱۶۔۱۵)
مزید یہ کہ سورۃ البلد ( آیت۱۸) میں مومنین صالحین کو اصحٰب المیمنۃ ( خوش قسمت؍ نصیبے والے) اور سورۃ الواقعہ ( آیت ۲۷)میں اصحٰب الیمین( نیک بخت؍ معزز و مکرم) کے خطاب سے نوازا گیا ہے اور منکرین و مکذّبین اصحٰب المشئمۃ  (بدنصیب/ ذلت کے مارے) (البلد۹۰ :۱۹) اور ’اصحٰب الشمال‘ (نحوست ، ناکامی و محرومی کے شکار) (الواقعۃ: ۴۱)  قرار دیئے گئے ہیں۔  اللہ ا حکم الحاکمین اپنے بندوں کے بارے میں جو فیصلہ فرمائے اسے کون بدل سکتا ہے؟ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ توحید، رسالت اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان میں سچے ہیں، آخرت (یعنی بعث بعد الموت،اللہ رب العزت کے حضور حاضری، دنیوی زندگی کے اعمال کے بارے میں بازپُرس ،اعمال نامہ ملنے اور اسی کے مطابق جزا یا سزا کا نظام قائم ہونے اور جنت نصیب ہونے یا نارِ جہنم میں ڈالے جانے ) پر یقین میں پختہ ہیں، افضل العبادۃ نماز کی ادائیگی کا اہتمام کر تے ہیں اوراللہ کے عطا کردہ مال سے کار ِخیر میں انفاق کیلئے سرگرم رہتے ہیں، اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق بجا لانے میں سنجید ہ و مخلص ہیں وہی دراصل صراط مستقیم پر گامزن ہیں، حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ہیں اور انہی کی ابدی زندگی خوشگوار اور فرحت بخش ہوگی ۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ہدایتِ الٰہی کی پیروی کی تلقین و تاکید کے ساتھ قرآن میں باربار انسان کو یہ نکتہ بھی گوش گزار کیا گیا ہے کہ جو کوئی ہدایت کا طلب گار ہوگا ،اس راہ میں دوڑ بھاگ کرے گا اور اس کی توفیق طلب کرنے کے لئے اللہ سے رجوع کرے گا اور دعائیں مانگے گا اور راہِ ہدایت پر چلنا میسر آجا نے پر اس پر چلتا رہے گا تو اپنے کو ہی فائدہ پہنچائے گا اور اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو کوئی گمراہی کو پسند کرے گا، راہِ حق سے منہ موڑے گا اور انکار و ہٹ دھرمی کا رویہ اپنائے گا تو  خود کونقصان پہنچائے گا،اپنی تباہی مول لے گا اور ناکامی و نامرادی کو گلے لگائے گا۔ارشادِ ربّانی ہے:’’جو کوئی بھی راہِ ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنی ہی بھلائی کے لئے کرے گا اور جو کوئی گمراہ ہوجائےاس کا وبال اس پر آکر رہے گا۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۱۵)  ’’اے رسولؐ! بتا دیجئے اے لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق آچکا ہے، پس جو کوئی سیدھی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے ہی فائدے کے لئے کرے گا اور جو کوئی اس راہ سے بھٹک جائے گا تو اس کا وبال اپنے اوپر لائے گا اور میں تم پر مسلط نہیں کیا گیا ہوں [کہ تمہیں ہدایت یافتہ بنا کر ر ہوں] ۔(یونس :۱۰۸)
 مزید برآں قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کتابِ ہدایت کی روشنی میں راست روی اختیار کرنے، اس پر قائم رہنے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی ایک بہت بڑی برکت یہ نصیب ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت ان اوصاف کے حاملین کے لئے ہدایت اختیار کرنے کی منازل میں ترقی عطا فرماتا ہے یا ان کے لئے ہدایت پر چلنے کی راہیں مزید ہموار کرتا رہتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور راہِ ہدایت پر چلنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک اجر اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔‘‘ (مریم:۷۶) ’’اور جن لوگوں نے ہدایت پا لی ہے، اﷲ ان کی ہدایت کو اور زیادہ فرما دیتا ہے اور انہیں ان کے مقامِ تقوٰی سے سرفراز فرماتا ہے۔‘‘  (محمد:۱۷)اس میں شبہ نہیں کہ ہدایت یافتہ لوگوں سے بھی گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے،بشری تقاضے سے ان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، بھول چوک بھی ہوتی رہتی ہے،لیکن انہیں جب اپنی غلطیوں پر تنبہ ہوتا ہے، خطا کے ارتکاب کا احساس جاگ اٹھتا ہے تو ایمان کی تازگی و عمل کی پاکیزگی کے لئے اللہ سے رجوع کرتے ہیں۔ وہ  اپنی اصلاح یا راہ ِ ہدایت پر جمے رہنے کا پختہ عزم کر تے ہیں،  ربِّ کریم سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں اور استقامت کی توفیق کے لئے دعائیں مانگتے ہیں چنانچہ اللہ رحمٰن و رحیم انہیں اپنی مغفرت سے نوازتا ہے۔ یہ آیت ایسے خطاکا ر وں کو یہ مژدہ سنا رہی ہے: ’’اور میں بے شک خوب مغفرت سے نوازنے والا ہوںان لوگوں کو جو [خطا سرزد ہوجانے پر] توبہ کرلیں اور [صحیح معنوں میں] ایمان لائیں، نیک عمل کر تے رہیں اور راہِ ہدایت پر چلیں۔‘‘ 
( طٰہ:۸۲)
راہِ حق پر استقامت
ان سب باتوں کے ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ کتابِ ہدایت ہی ہمیں بتاتی ہے کہ راہِ حق ا و ر اس پر استقامت کی نعمتیں اللہ ہی کی توفیق سے نصیب ہوتی ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے:
 ’’اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو واضح آیتوں کے ساتھ نازل کیا ہے اور بے شک اللہ جسے چاہتا ہے اپنی ہدایت سے نوازتا ہے۔‘‘ (الحج :۱۶)  ’’یہی اللہ کی ہدایت ہے جسے چاہتا ہے اسے نصیب کرتا ہے۔‘‘ (الزمر:۲۳)  ’’اللہ حق بات ہی کہتا ہے اور وہی راہِ حق دکھاتا ہے۔‘‘  (الاحزاب :۴) ’’اور اللہ جسے چاہتا ہے راہِ مستقیم دکھا دیتا ہے۔‘‘(البقرہ۲: ۲۱۳)
واقعہ یہ ہےکہ تزکیۂ نفس و تطہیرِقلب( دل کی پاکی و صفائی)، تقویٰ و پرہیزگاری( اللہ ربّ العزت کی عظمت کا احساس اور اس کی گرفت کا خوف جو انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے)، اھتداء (ہدایت یافتہ ہونا یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت پر چلنا)، اخلاصِ نیت ( اللہ کی خوشنودی کے لئے نیک عمل کرنا)، ان سب کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل کا حال،اس کی کیفیت اور اس کے تحت صادر ہونے والے اعمال کی نوعیت اور ان کی قبولیت کے مقام و مرتبہ کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے،جیسا کہ ان آیات سے واضح ہوتا ہے: 
’’ پس تم اپنے آپ کو بڑا پاک و صاف مَت جتایا کرو، وہ خوب جانتا ہے کہ (اصل) پرہیزگار کون ہے۔‘‘ (النجم: ۳۲)
’’ کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں جو اپنی پاکیزگی بیان کرتے ہیں،حالاں کہ اللہ جس کو چاہتا ہے پاکیزگی عطا فرماتا  ہے۔‘‘ (النساء:۴۹)
’’ تمہارا رب سب سے زیادہ جاننے والا ہے اس بات کو جو تمہارے دلوں میں ہے۔‘‘
( بنی اسرائیل:۲۵)
 استقامت کے لئے دُعا
ان حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو اپنے ہدایت یافتہ ہونے یا صحیح معنوں میں راہِ ہدایت اختیار کرنے کے بارے میں بہت لمبے لمبے دعوے نہیں کرنے چاہئیںاور نہ اپنے کو بہت زیادہ پاکیزہ یا بہت بڑا متقی سمجھنا چاہئے، بلکہ اس راہ میں کوشش جاری رکھتے ہوئے اللہ سے رجوع کرنا چاہئے اور دل کی پاکیزگی ، نیت کے اخلاص اور ارادہ کی پاکی کیلئے مستقل دعا مانگتے رہنا چاہئے۔
راہِ حق پر استقامت کی قرآنی دعائوں میں ایک بہت ہی معروف و مقبول دعا یہ بھی ہے:  (ترجمہ) ’’اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کجی نہ آنے دے اس کے بعد کہ تونے ہمیں ہدایت کی توفیق بخش دی اور ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما، بے شک تو خوب عطا فرمانے والا ہے۔ ‘‘ (آل عمران:۸)
اسی طرح ہدایت پر جمے رہنے کے لئے یہ مسنون دعائوں میں ایک بہت مشہو ر دعا ہے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ ( جامع ترمذی ، کتاب الدعوات ، باب دعا)  ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے۔‘‘
مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب کی متعدد آیات میں ہدایتِ الٰہی،اس پر استقامت اور اس کے فیوض و برکات اور خوش گوار نتائج سے متعلق حقائق بار بار واضح کیے گئے ہیں ۔ ان کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے، بس خلاصہ کے طور پر یہ عرض کرنا ہے کہ متعلقہ آیاتِ کریمہ پر تدبر و تفکر سے انسان کے نام اولین پیغامِ الٰہی سے یہ قیمتی نکات سامنے آتے ہیں :
    دنیا کی زندگی اور یہاں کا ساز وسامان عارضی و فانی ہے،ان سے تعلق و انتفاع بس ضرورت کی حد تک ہی مفید رہے گا۔
    دنیا میں گزر بسر کے لئے جو کچھ ملا ہوا ہے وہ سب اللہ رب العزت کا عطیہ اور اس کی امانت ہے، اسے استعمال کرتے ہوئے منعمِ حقیقی کو یاد کرنا اور اس کی مرضیات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔     زندگی کے ہر معاملے میں ہدایتِ الٰہی کی پیروی دنیا کے عارضی قیام میں سکونِ قلب و اطمینان نصیب کرے گی، آخرت میں ہمیشہ ہمیش کیلئے رضائے الٰہی اور جنت کی لازوال نعمتوں سے شاد کام کرے گی اور مستقل مستقر [جنت] کو ایسا فرحت بخش اور خوشگوار بنائے گی کہ وہاں نہ کسی چیز کا خوف لاحق ہو گا اور نہ کوئی غم ہی ہوگا ۔    ہر حال میں مومن سے ذکر ِ الٰہی، شکر ِ الٰہی، رجوع الی اللہ اور توبہ و استغفار مطلوب ہے۔  اللہ رب العزت ہم سب کو ہر شعبۂ حیات میں ہدایاتِ ربّانی پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے، اپنی رضا سے ہمیں نوازے اور عارضی و دائمی دونوں ٹھکانوں [دنیا و آخرت ] میں سکون و اطمینان نصیب فرمائے۔ آمین ثم  آمین! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK