• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

صالح معاشرہ کی تشکیل کیلئے ہر شعبۂ حیات میں اخلاقیات کی پابندی ضروری ہے

Updated: September 13, 2024, 2:47 PM IST | Shireen Khalid | Pune

موجودہ دور میں انٹرنیٹ کی آسان فراہمی نے جو نئے مسائل پیدا کئے ہیں ان میں اخلاقی بگاڑ بھی ہے۔ اسلامی تعلیمات پر سختی سے کاربند رہ کر بہت سے بگاڑ سے بچا جاسکتا ہے۔

Excessive use of social media is proving to be a poison killer for the youth. Photo: INN
سوشل میڈیا کا بے تحاشا استعمال نوجوانوں کے لئے سم قاتل ثابت ہورہا ہے۔ تصویر : آئی این این

آزادی انسانی سماج کی اہم بنیاد ہے۔ تصورِ آزادی کو ہر مکتب فکر اور فلسفہ نے قبول کیا ہےاور اس کی مختلف وضاحتیں پیش کی ہیں۔ آزادی عربی لفظ حریت کا ترجمہ ہے۔ حقیقی آزادی بنیادی طور پر اخلاقیات سے جڑی ہوتی ہے۔ اخلاقیات کے بغیر آزادی میں ظلم و جبر پیدا ہوتا ہے، جس میں ناانصافی ہوتی ہے اور ناانصافی کی شکلیں بد لتی رہتی ہیں۔ اخلاقی اقدار کےساتھ آزادی میں کئے گئے فیصلے راست بازی کے اصولوں کے مطابق انصاف پر قائم ہوتے ہیں ۔ جب معاشرے میں اخلاقی اقدار قائم ہوتی ہیں تو معاشرے کےاندر حقوق کے حصول اور فرائض کی ادائیگی میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ آزادی میں اخلاقیات کا عنصر نہ ہو تو اس کی جگہ ظلم وجبر اور زیادتی و نا انصافی معاشرے میں جگہ بنا لیتی ہے۔ اخلاقیات کے بغیر آزادی کے نتیجے میں آج ہم سماج میں بہت سے چیلنج دیکھتے ہیں ۔ نام نہاد نعروں (جیسے میری زندگی میری مرضی) وغیرہ سے سماج میں اخلاقیات کو برقرار رکھنے میں خطرات پیدا ہوتے ہیں۔ مادہ پرستی کا بڑھتا رجحان، ردّ اور قبول کے پیمانے اور تصورات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ ایسے کام جو کل تک ناقابل قبول اور معیوب سمجھے جاتے تھے آج وہ فخر سے اور قانونی اجازت کے ساتھ انجام پا رہے ہیں۔ گھر سے لے کر کالج تک اور کالج سے لے کر بازار تک بے حیائی پر مبنی ماحول کا سامنا ہے۔ ایسا معا شرہ اور فضا نوجوان کی جنسی خواہشات کو بر انگیختہ کر دیتے ہیں ۔ 
  معاشرے کے اس اخلاقی بگاڑ کی وجوہات پر غور کریں تو سب سے پہلے گھروں میں پائی جانے والی بے راہ روی اس کی اہم وجہ معلوم ہوتی ہے۔ بہت سے والدین نے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو فراموش کر رکھا ہے۔ فرد کی تربیت کی ابتداء اس کے اپنے گھر سے ہوتی ہے لیکن بہت سے گھروں کا ماحول ہی بچوں کی اخلاقی تربیت کے عنصر سے خالی ہے۔ والدین اولاد کی ہر مادی ضرورت کو دن رات محنت کر کے پورا کرنےکو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور بچوں کی کردار سازی اور ان کے اخلاق کی تعمیر، جو کہ ان کا فرض اولین ہے، سے عدم توجہی برتتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت مزاج طاقتور فرشتے (مقرر) ہیں جو کسی بھی امر میں جس کا وہ انہیں حکم دیتا ہے اﷲ کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام انجام دیتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ ‘‘ (تحریم:۶)

یہ بھی پڑھئے: پہاڑ: اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی نشانی

اولاد کے ساتھ وقت کی کمی، والدین کے آپسی جھگڑے اور گھر کا بگڑتا ماحول بچوں میں بد اخلاقی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ 
 اسی کے ساتھ دوسری چیز جو بد اخلاقی میں اضافہ کرتی ہے معاشی عدم مساوات ہے۔ معاشی اعتبار سے معاشرہ دو طبقات میں بٹ گیا ہے، ایک امیر طبقہ دوسرا غریب تر طبقہ۔ کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے اکثر افراد معاشی سطح بلند کرنے کیلئے جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں تو دوسری طرف امیر طبقے میں مال و دولت کی فراوانی انہیں اخلاقی سطح سے گرا دیتی ہے۔ تعلیمی نظام معاشرہ کی روحانی اور مادی ترقی میں اہم رول ادا کرتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس میں بھی بگاڑ پایا جاتا ہے۔ یہ نظام مادہ پرستی اور سامراج کی تعلیم پیش کرتا ہے جس کے سبب معاشرہ کے نوجوان چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے انتشار کا شکار ہیں۔ 
 اُصولی طور پر سیاسی نظام کی ذمہ داری اپنے ملک اور قوم کو مسائل اور محرومیوں سے نکال کر مجموعی طور پر ترقی کی طرف لے جانا ہے جسے خدمت انسانیت کہا جاتا ہے لیکن آج سیاسی نظام کا مفہوم ہی تبدیل ہو چکا ہے۔ لوٹ کھسوٹ، اقلیت کے ساتھ ظلم و جبر، نا انصافی اور ظالموں کی پشت پناہی عام ہے۔ 
  سماج کے مختلف شعبوں میں جاری اس بگاڑ کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر لوگوں کا اخلاق ہے۔ روشن خیالی کے نام پر فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بہت سے نوجوان لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پورنو گرافی کی صنعت دنیاکی سب سے زیادہ آمدنی والا بزنس بن گیا ہے۔ یہ صورتحال بہت ہی خوفناک ہے۔ 
  اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں : 
 ’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے اسے علم کے باوجود گمراہ ٹھہرا دیا ہے اور اس کے کان اور اس کے دل پر مُہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے، پھر اُسے اللہ کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے، سو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے؟‘‘ (الجاثیہ:۲۳)
  اسی طرح کی صورتحال ذہنی امراض کی بھی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے ۹۷۰؍ ملین افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ ڈپریشن عام ہوتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں لوگ سکون کی تلاش میں شراب کی لت میں مبتلا ہورہےہیں اور منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً ۱۶؍کروڑ افراد نشہ کرتے ہیں۔ پورنوگرافی، فحاشی اور عریانیت سے بھری ویب سائٹس ایک طرف دماغی امراض کا سبب بن رہی ہیں تو دوسری جانب خودکشی کا گراف بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرلیتے ہیں۔ یہ خدا پرستی سے آزاد اور مادیت کی غلامی کے نتیجے میں معاشرہ میں پیدا ہونے والی اخلاقی برائیوں کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ ان خرابیوں نے انسانی معاشرے کو ہلاکت و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ کلام پاک میں فرمایا گیا:
 ’’بحر و بر میں فساد ان (گناہوں ) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں تاکہ (اﷲ) انہیں بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کئے ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں۔ ‘‘ (الروم:۴۱)
 اسلام ایک الٰہی دین کی حیثیت سے انسانی تہذیب کے تمام امور کیلئے مخصوص اصول فراہم کر تاہے۔ اسلام تمام انسانوں کیلئے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور فرد کےانفرادی اور سماجی حقوق کو اللہ کی مرضی کے تابع کرتا ہے نیز آخرت کی جوابدہی کا احساس انسانوں کو ہر قسم کی اخلاق باختگی اور جنسی بے راہ روی سے روکتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: ’’اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لئے (اپنے احکام کی) وضاحت فرما دے اور تمہیں ان (نیک) لوگوں کی راہوں پر چلائے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں اور تمہارے اوپر رحمت کے ساتھ رجوع فرمائے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ ‘‘ (النساء:۲۶)
  لہٰذا ضابطہ ٔ اخلاق کی کڑیاں ہی معاشرے کو ہر قسم کی برائیوں سے بچا سکتی ہیں اور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل میں معاون ومددگار ہوسکتی ہیں بشرطیکہ انہیں خود پر لازم کیا جائے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK