جب تک ہمارے اندر ’’میں‘‘ہے یعنی اپنی ذات کی موجودگی کا احساس ہے اور اپنا دھیان ہے، اس وقت تک خدانہیں ملتا۔ خود سے ملو یا خدا سے ملو۔ یہ دو چیزیں اکٹھی نہیں ہوں گی۔
EPAPER
Updated: March 10, 2023, 10:30 AM IST | Dr. Muhammad Tahir-ul-Qadri | Mumbai
جب تک ہمارے اندر ’’میں‘‘ہے یعنی اپنی ذات کی موجودگی کا احساس ہے اور اپنا دھیان ہے، اس وقت تک خدانہیں ملتا۔ خود سے ملو یا خدا سے ملو۔ یہ دو چیزیں اکٹھی نہیں ہوں گی۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا
’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔ نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے۔ روزِ جزا کا مالک ہے۔ ‘‘ (الفاتحة:۱؍تا۳)
سورۃ الفاتحہ اسلامی تعلیمات کا ایک جامع تصور دیتی ہے۔ یہ مضمونِ ہدایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قرآن مجید کا افتتاحی باب ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ الفاتحہ میں ایک پیغام دیا ہے کہ اگر بندہ میرے ساتھ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے کیا رویّہ اختیار کرنا چاہئے؟
تعلق باللہ کا راز خود سے جدا ہوجانے میں ہے
اس سورۃ کی پہلی آیت میں اس بات کا ذکر ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں مگر یہ ذکر نہیں ہے کہ تعریف کرنے والا کون ہے ؟ کس نے تعریف کی ہے ؟ اس میں صرف اللہ کا ذکر ہے مگر اس کی تعریف کرنے والے کا ذکر نہیں۔ یعنی جس کی تعریف ہے، اسی کا ذکر ہے۔
اس اسلوب سے اللہ تبارک وتعالیٰ مخلوق کو اپنے ساتھ تعلق قائم کرنے کے طریقہ کے بارے رہنمائی فرمارہا ہے کہ میری تعریف کرو، میری حمد کرو، میرا شکر بجا لاؤ، میری عظمت بیان کرو مگر اپنے آپ کو درمیان سے نکال دو یعنی اپنی ذات کی نفی کرو۔ میں اس شخص کا تعلق اپنے ساتھ قائم کرتا ہوں جو مجھ سے تعلق قائم کرتے ہوئے خود کو درمیان سے نکال دے۔ جو بندہ اپنی موجودگی کا احساس پیدا کرتا ہے کہ ’’اے اللہ! میں تیری تعریف کرتا ہوں‘‘ تو اللہ تعالیٰ اس سے تعلق قائم نہیں فرماتا۔ وہ فرماتا ہے کہ یہ بندہ ابھی خود سے نہیں نکلا، یعنی ’’میں‘‘ سے نہیں نکلا تو مجھ سے کیسے ملے گا ؟ پس جب تک ہمارے اندر ’’میں‘‘ہے یعنی اپنی ذات کی موجودگی کا احساس ہے اور اپنا دھیان ہے، اس وقت تک وہ نہیں ملتا۔
پس اس سے ملنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ اپنے آپ کو نکال دو۔ خود سے ملو یا خدا سے ملو۔ یہ دو چیزیں اکٹھی نہیں ہوں گی۔ میرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کہ بندہ خود سے ملتا ہے یا خدا سے ملتا ہے۔ بندوں کو خدا تب ملتا ہے جب وہ خود سے جدا ہوتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے آپ میں رہتے ہیں اس صورت میں اجر تو مل سکتا ہے، جنت مل سکتی ہے، ثواب مل سکتا ہے، صحت ، رزق الغرض ساری نعمتیں مل سکتی ہیں مگر نعمت عطاکرنے والا نہیں ملتا۔
اسی طرح دوسری اور تیسری آیت میں بھی اللہ نے بندے کا ذکر نہیں فرمایا۔ ان پہلی تین آیات کے اس اسلوب کے ذریعے اس نے بندے کو یہ سکھایا ہے کہ اللہ کیسے ملتا ہے؟ اور اس سے تعلق کیسے بنتا ہے؟ اللہ سے تعلق تب بنتا ہے جب بندہ خود سے تعلق توڑتا ہے۔
نعمتیں چاہئیںیا نعمتوں والا؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بندہ خود سے کیسے جدا ہو؟ یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔سن لیں! خود کو نہیں چھوڑیں گے تو اللہ نہیں ملے گا۔ اگر اللہ سے تعلق بنانا ہے تو خود کو درمیان سے نکالنا پڑے گا۔ اس لئے کہ جب بندہ خود کو درمیان میں رکھتا ہے تو اس کے اپنے گورکھ دھندے آڑے آجاتے ہیں، اس صورت میں اسے اللہ سے تعلق کیسے جوڑنا ہے ؟ جب وہ ان گورکھ دھندوں میں رہے گا کہ ’’مجھے اچھی جاب مل جائے… اچھی ڈگریاں حاصل کروں… میرا بزنس ہو، آمدنی میں اضافہ ہو… شادی ہوجائے… اچھا گھر بنالوں… اولاد مل جائے… بیٹی مل گئی تو کہتا ہے، بیٹا بھی مل جائے۔ ۔ ۔ پھر اولاد کے مستقبل کا سوچتا ہے… پھر دادا اور نانا بن گیا…الغرض مرتے دم تک یہ دھندے ختم ہی نہیں ہوتے۔
کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیں جو خود سے جدا نہیں ہوا اور ان مصیبتوں سے جدا ہوگیا ہو۔ اس کے مسائل ختم ہی نہیں ہوتے۔ زندگی کے مسائل نہ ختم ہونے والے ہیں ۔ جب بندے کی اپنی سوچیں اور پریشانیاں ختم نہیں ہوتیں تو وہ اللہ سے تعلق کی گنجائش کہاں سے پیدا کرے گا؟ اس کے لئے تو اِس کے باطن میں کوئی جگہ ہی نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پہلا سبق دیا کہ یا تو میری نعمتوں سے تعلق بنالو یا مجھ سے تعلق بنالو۔ اگر نعمتوں سے تعلق بنانا ہے تو یہ بھی درست ہے، یہ ناجائز اور ممنوع نہیں۔ اگر گناہوں سے بچے رہیں تو جنت بھی مل جاتی ہے۔ لیکن اگر اللہ کو پانا ہے تو پھر اپنے آپ کو بھولنا ہوگا۔ جو اللہ کے تعلق میں خود کو درمیان سے نکال دیتے ہیں تو وہ صابر و شاکر ہوجاتے ہیں اور پرسکون رہتے ہیں، پریشان نہیں ہوتے کیونکہ ان کا اللہ پر توکل قائم ہوجاتا ہے۔
پس اللہ رب العزت کے ساتھ تعلق قائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ خلوص، وفاداری اور توجہ کے ساتھ اس کا ذکر کیا جائے اور کوئی اور چیز ہمارے اور ہمارے اللہ کے درمیان میں نہ آئے۔
اجتماعیت کو انفرادیت پر ترجیح
سورۃ الفاتحہ کی پہلی تین آیات میں بندہ صرف اللہ کو پکارتا ہے اور اپنا وجود بھول جاتا ہے۔ پھر جب اللہ دیکھتا ہے کہ بندے نے اپنا ذکر چھوڑ دیا ہے اور اپنے آپ کو بھول گیا ہے، تب اس کے بعد آواز آتی ہے کہ اے میرے بندے! اب تو مجھ سے مخاطب ہو، اب مجھ سے بات کر، اس لئے کہ تو خود کو بھول کر مجھ سے تعلق بنارہا ہے۔ اب بندہ اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے:
’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، ہم صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ‘‘
اس آیت کے پہلے لفظ ’’اِیَّاکَ‘‘ (تیری ہی) میں بھی بندے کا ذکر نہیں ہے۔ پہلے اللہ کا ذکر آیا پھر بعد میں بندے کا ذکر کیا اور یہاں بھی جب بندے کا ذکر آیا تو ’’میں‘‘ نہیں کہا بلکہ ’’ہم‘‘ کہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ساری زندگی کا فساد ’’میں‘‘ میں ہے۔ یہ ’’میں‘‘ ممنوع ہے، اس فساد کی جڑ کو نکالنے کا حکم ہے۔ نماز اکیلے بھی ادا کررہے ہیں پھر بھی اجازت نہیں کہ یہ کہیں: ’’اے اللہ میں صرف تیری ہی عبادت کرتا ہوں۔ ‘‘ اس اسلوب سے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اپنے آپ کو انفرادی طور پر ختم کردیں اور اجتماعیت کو پروموٹ کریں۔
اگر زندگی سے ’’میں‘‘ ختم ہوجائے اور ’’میں‘‘ کی جگہ ’’ہم‘‘ آجائے تو دنیاوی رشتوں میں ہمارے تمام جھگڑے ختم ہوجائیں۔ وہ رشتہ خواہ ساس بہو کا ہو، بھائیوں کا ہو، بہن بھائی کا ہو، میاں بیوی کا ہو، کزنز کا ہو، دوستوں کا ہو، الغرض ان تمام رشتوں میں جھگڑے کی بنیاد درحقیقت ’’میں‘‘ ہوتی ہے۔ یہ تمام جھگڑے ’’میں‘‘ سے ہی ابھرتے ہیں۔
یاد رکھیں!خیر، اجتماعیت میں ہے۔ خیر کے لئے کیا جانے والا کام اور کوئی بھی اجتماعی کوشش اس وقت تک ثمر آور اور مقبول نہیں ہوتی، جب تک اس کام کو کرنے والے اپنی انفرادیت کو ختم نہیں کریں گے۔ اس اجتماعیت سے اس وقت تک سکون نہیں ملے گا، جب تک اس اجتماعی کام کو سرانجام دینے والوں میں سے ’’میں‘‘نہیں نکلتا۔ ’’میں‘‘ ایک نہ ختم ہونے والا دھندہ ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں۔
تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں
اسی طرح دوسروں کی غلطیوں پر تحمل اور بردباری کا اظہار کیا کریں۔ کوئی شخص اگر کسی بڑے منصب اور ذمہ داری پر فائز ہے یا کسی کے پاس کسی بھی نوعیت کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے دوران اس سے کوئی غلطی ہوگئی ہے تو اب اس پر جارحانہ انداز اختیار کرنا مناسب نہیں۔ انسان سے خطا ہوتی ہے، کسی ذمہ داری پر فائز شخص بھی انسان ہے، وہ بھی اپنی ذمہ داری میں غلطی کرسکتا ہے۔ جیسے ہم سے غلطی ہوسکتی ہے، ویسے ہی دوسروں سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ دوسروں کی غلطیوں پر درگزر سے کام نہ لینا بھی دراصل ’’میں‘‘ ہی کا فتنہ ہے۔ اگر سوچ ’’میں‘‘ سے شروع ہوگی تو پھر جھگڑے پیدا ہوں گے، خیر کا فقدان ہوگا اور تعلق خیر پر مبنی نہیں ہوگا۔
سورۃ الفاتحہ کی ان آیات میں یہی پیغام ہے کہ جب میں اپنی عبادت جیسے عظیم کام میں ’’میں‘‘ نہیں آنے دیتا تو تم اپنے معاملات میں ’’میں‘‘ کو کیوں لاتے ہو ؟ ہمارے تمام جھگڑوں، ناچاقیوں اور فساد کا سبب’’میں‘‘ ہی ہے۔ شیطان بھی اسی ’’میں‘‘ کے گناہ کی وجہ سے دھتکار دیا گیا تھا۔ اس نے یہی تو کہا تھا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ اسی ایک لفظ نے اسے برباد کردیا۔ ’’میں‘‘ درحقیقت شیطان کی بھڑکائی ہوئی چنگاری ہے، اسی سے تعلقات اور رشتہ داریاں خراب ہوتی ہیں، اسی کی وجہ سے اللہ کے ساتھ تعلق بھی خراب ہوتا ہےا ور اسی کی وجہ سے مخلوق سے تعلق میں بھی خرابی آتی ہے۔
ۭوسعتِ ظرف پیدا کریں
اللہ تعالیٰ نے بندے کو سورۃ فاتحہ میں اپنے سے بات کرنے اور تعلق قائم کرنے کا ادب یہ سکھایا کہ جب اللہ سے بات کریں تو تب بھی ’’میں‘‘ نہیں کہنا بلکہ ’’میں‘‘ سے نکلنا ہے اور اللہ سے دعا کرنی ہے کہ اے اللہ مجھ میں سے ’’میں‘‘ نکال دے۔ اگر کسی کو کسی وجہ سے کسی سے رنج اور ناراضگی ہے اور جس سے ناراضگی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کو یہ احساس ہی نہ ہو کہ اس نے غلطی کی ہے، لہٰذا میں معافی مانگ لوں تو اب کتنا اچھا ہو کہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، وہ اپنے ظرف میں وسعت لائے اور اس کے پاس چلا جائے جس نے زیادتی کی اور کہے کہ مجھے معاف کردو۔
دوسروں کے بارے میں سوچیں
سورۃ الفاتحہ کی اگلی آیت میں فرمایا:’’اے اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھا۔‘‘ یہاں بھی اللہ نے ’’میں‘‘ کی جڑ کو کاٹ دیا ہے۔ یہ کہنے کی بھی اجازت نہیں دی کہ اے اللہ ’’مجھے‘‘ سیدھی راہ دکھا بلکہ بندہ کہہ رہا ہے کہ اے اللہ ’’ہمیں‘‘ سیدھی راہ دکھا۔ گویا سیدھی راہ کی ہدایت کی طلب میں سارے شامل ہوگئے۔ جب بندہ ہر ایک کو شامل کرکے ہر ایک کے لئے دعا کرتا ہے تو اس بندے کا دل بڑا ہوتا ہے اور بندے کے دل کا بڑا ہونا سب سے عظیم کام ہے۔ اللہ رب العزت جب دیکھتا ہے کہ میرا یہ بندہ دوسرے بندوں کا سوچتا ہے، تو وہ اسے اور زیادہ عطا کرتا ہے۔ پس بندے کا دل جتنا بڑا اور وسیع ہوجائے گا، اللہ اسی قدر اس پر عظیم رحمتیں نازل کرتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ یہ میرے دوسرے بندوں کا سوچتا ہے، اس نے میرے بندوں کا فکر کی لہٰذا میں رب ہوکر اسے اور زیادہ عطا کرتا ہوں۔ اس طرح اللہ سے تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ ہم اللہ کی مخلوق کے لئے جتنا اچھا سوچتے ہیں، اللہ ہمارے لئے اتنا اچھا کرتا ہے۔ جب ہم زندگی کے ہر لمحہ میں اور ہر قدم پر اس کی مخلوق کی فکر کریں گے، اللہ ہمارے ہر معاملہ میں خیر کردے گا۔
نیک صحبت میں بقا ہے
صراطِ مستقیم کی ہدایت کی دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے سیدھی راہ کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو تیرے انعام یافتہ لوگ ہیں ان کے راستے پر چلا۔‘‘ جن پر اللہ نے اپنی نعمتیں اور اپنا لطف کیا، وہ لوگ انعام یافتہ ہیں۔ گویا اس آیت میں اللہ نے انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ جڑ جانے کا حکم دیا۔
ہمیں اپنے ایمان اور اولاد کے ایمان کے تحفظ کے لئے اجتماعیت کا حصہ بننا ہوگا۔ آج کے زمانے میں اولاد اور نسلوں کے روحانی معاملات کا تحفظ تنہا رہ کر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کیلئے اجتماعیت کی طرف مستقل اور باقاعدگی کے ساتھ رجوع کرنا پڑے گا کیونکہ اجتماعیت ہمیں تحفظ دیتی ہے۔ مثلاً وہ مسجد، مدرسہ، تنظیم اور ادارہ جہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ذکر ہوتا ہے، تعلیم دی جاتی ہے، ہر وقت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے پیغام کو دہرایا جاتا ہے، جب مسلسل ایسی سرگرمیوں کا حصہ رہیں گے، ذمہ داری کے ساتھ ہدایات سن کر دوسروں تک پہنچائیں گے تو یہ امور ہمارے اور ہماری نسلوں کے ایمان کے تحفظ کا قلعہ بن جائیں گے۔ اس لئے صراط الذین انعمت علیھم کا حکم ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کی صحبت سے جڑ جائیں، ان سے فیوضات و برکات حاصل کریں اور ان کی گفتگو، کتب اور تعلیمات کو سن اور پڑھ کر اللہ سے تعلق قائم کریں۔
صحبت ِ بد سے اجتناب
پھر فرمایا:’’ان لوگوں کا راستہ نہیں دکھا یا اُن کے راستے پہ مت چلا جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا ۔‘‘
یعنی جہاں اللہ کا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے، ان سے دور ہوجائیں، ان کی صحبت چھوڑ دیں۔ خواہ وہ دوست ہوں، کلاس فیلوز ہوں یا جاب فیلوز ، ان کی صحبت چھوڑ دیں اور ان کے پاس نہ جائیں۔ وہ ہمارے ایمان کو برباد کردیں گے… اللہ کی رحمتوں، نعمتوں اور ہدایت سے ہمیں دورکردیں گے۔ یاد رکھیں! دو چیزیں اکٹھی نہیں چل سکتیں، جیسے ایک ہی وقت میں مشرق اور مغرب کا سفر ناممکن ہے ، جس طرح دن اور رات، سردیوں اور گرمیوں کا موسم ایک وقت میں نہیں ہوتا۔ اسی طرح رحمٰن اور شیطان دونوں کے راستے پر بیک وقت چلنا ناممکن ہے۔ لہٰذا ایک راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور یہ راستہ وہ ہے جو اللہ، اس کے رسول ﷺ اور انعام یافتہ لوگوں کی طرف لے جاتا ہے۔ جہاں سے نیکی کا سبق ملتا ہے، نیکی کی حرارت ملتی ہے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا سبق ملتا ہے، اس سے جڑیں، اپنی اولاد کو جوڑیں، یہی تعلق ہمارے ایمان کا تحفظ کرے گا،ان شاء اللہ ۔