مہاراشٹر اسمبلی کے نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ اقتدار کیلئےہر حربہ آزمایا جاسکتا ہے جس میں پیسوں کی ریل پیل، فرقہ پرستی اور مخالفین پر کیچڑ اچھالنا بھی شامل ہے۔
EPAPER
Updated: December 17, 2024, 3:39 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
مہاراشٹر اسمبلی کے نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ اقتدار کیلئےہر حربہ آزمایا جاسکتا ہے جس میں پیسوں کی ریل پیل، فرقہ پرستی اور مخالفین پر کیچڑ اچھالنا بھی شامل ہے۔
جن ۲؍ ریاستوں کے نتائج کا بے صبری سے انتظار تھا وہ آ گئے۔ ایک ریاست میں این ڈی اے اتحاد کو اور دوسری ریاست میں انڈیا اتحاد کو عوام نے حکومت سازی کے لئے منتخب کرلیا۔ ضمنی انتخابات میں جہاں مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے جھنڈے گاڑے ہیں وہیں زیادہ تر ریاستوں میں این ڈی اے اتحاد نے بازی ماری ہے۔ اتر پردیش کے نتائج کا سب کو پولنگ والے دن ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جا رہا ہے۔
ان تمام نتائج میں سب سے زیادہ چونکانے والے اور انتہائی غیر متوقع نتائج مہاراشٹر کے تھے۔ یہاں حکومت مخالف لہر بہت مضبوط ہونے اور زمین پر موجود ہونے کے باوجود جو نتائج آئے ہیں وہ کسی سے ہضم نہیں ہو رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں۔ کوئی لاڈلی بہن یوجنا کو مہایوتی کی فتح کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے تو کوئی سرکارکی دیگر اسکیموں کا نام لے رہا ہے۔ کوئی تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہا ہے کہ بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیاں انتخابی تال میل کے معاملے میں بہت بہتر تھیں جبکہ مہا وکاس اگھاڑی میں کوئی تال میل ہی نہیں تھا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مہاوکاس اگھاڑی کی تینوں پارٹیوں کا آپس میں کوئی میل نہیں تھا کیوں کہ دو سیکولر پارٹیاں تھیں جبکہ ایک کا ٹریک ریکارڈسبھی کے سامنے ہے۔ اسی لئے ووٹرس نے انہیں ووٹ نہیں دئیے۔ اگر یہ دلیل مان لی جائے تو مہایوتی میں بھی معاملہ ایسا ہی تھا۔ بی جے پی اور ایکناتھ شندے کی سینا کا ٹریک ریکارڈ سیکولر ازم مخالف رہا ہے جبکہ تیسری پارٹی یعنی اجیت پوار کی این سی پی کو بڑی حد تک سیکولر پارٹی کہا جاسکتا ہے۔ اسی لئے یہ دلیل ہضم نہیں ہوتی کہ ووٹرس نے محض اس فیکٹر کی بنیاد پر ووٹ دیا کیوں کہ اس طرح کا سقم تو دونوں طرف موجود تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اوپر بیان کی گئی اسکیموں کا فرق پڑتا ہے اور کہیں نہ کہیں ہندوستانی عوام غربت اور مہنگائی کی وجہ سے پیسوں میں بہہ جاتے ہیں۔ ان اسکیموں کے باوجود پارٹیوں اور امیدواروں کے ذریعہ پیسے دینے کے الزام بھی لگتے رہے ہیں۔ پیسے کا کردار رائے دہندگان تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ ان لوگوں کو بھی دیا جاتا ہے جو عوام کی رائے بدلنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابات میں پیسہ کا دخل بہت بڑھ گیا ہے اور الیکشن کمیشن کا اس مسئلے سے صرفِ نظر کرنا پیسہ کے دخل کو مزید بڑھا رہا ہے۔ کارپوریٹ گھرانے پہلے بھی اپنی مرضی کی حکومتوں کے لئے لابنگ کرتے رہے ہیں لیکن وہ اس آگ سے دوری بنا کر رکھتے تھے، اور تمام سیاسی پارٹیوں کی مدد کرتے تھے لیکن اب جس انداز سے کارپوریٹ گھرانے اپنے فائدے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں وہ تشویشناک ہے۔
مہاراشٹر میں پیسوں کا کھیل کسی سے مخفی بھی نہیں ہے اور ایک پارٹی کے قومی لیڈر پر تو پیسے تقسیم کرنے کا الزام بھی لگا جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آگ کہاں تک پھیل گئی ہے۔ غربت اور مہنگائی اس قدر ہے کہ عوام کو تھوڑی راحت بھی بہت بڑی راحت لگتی ہے۔ الیکشن کے دوران اور اس کے بعد بھی یہ باتیں سیاسی و انتخابی حلقوں میں گردش کرتی رہیں کہ مہاراشٹر الیکشن میں پیسوں کی بارش ہوئی ہے۔ یہ صرف قانونی طریقے سے ہی نہیں بلکہ ان دیگر تمام طریقوں سے ہوئی ہے جس کے ذریعے الیکشن پراثر انداز ہونے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ پیسوں کا کھیل امیدواروں کے خرچ میں بھی واضح طور پر نظر آیا۔ کئی جگہوں پر یہ بات سامنے آئی کہ ایک ایک امیدوار کو کروڑوں روپے پہنچائے گئے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ خرچ کرکے الیکشن پر اثر انداز ہو سکے۔ ہر چند کہ اس کی تصدیق کوئی نہیں کرے گا لیکن یہ ایسا سچ ہے کہ اس کی تصدیق کی کسی کو ضرورت نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں انتخابی حلقوں میں یہ بحث بھی چھڑی رہی کہ ایک یوٹیوب چینل پر صحافی اشوک وانکھیڑے یہ دعویٰ کردیا کہ انتخاب میں دھاندلی کے لئے گجرات سے مہاراشٹر تک ۳۴؍سو کروڑ روپے پہنچے ہیں۔ یہ دعوے غیر مصدقہ ہیں لیکن یہ تو واضح ہے کہ بڑی رقم کا کھیل ہوا ہے۔ ممبئی کے سیاسی مباحث میں ایسی باتیں سامنے آئی ہیں کہ سبھی سیٹوں پر این ڈی اے کی تشہیر کے لئے حکومت کی جانب سے پیسے دینے کی پیشکش ہوئی تھی جسے مہایوتی کے ایک سینئرلیڈر نے نامنظور کر دیا۔ اب اس پر الیکشن کمیشن کتنی باریکی سے غور کرتا ہے یہ تو قت ہی بتائے گا لیکن الیکشن کو جتنا مہنگا اور مشکل بنایا جارہا ہے اس سے یہ تو طے ہے کہ آگے چل کر الیکشن لڑناکسی بھی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہو گی۔
ہماری نظر میں مہاراشٹر انتخابات کے نتائج پرجس فیکٹر نے سب سے زیادہ اثر کیا وہ فرقہ پرستی تھا۔ الیکشن کے دوران یوگی آدتیہ ناتھ کے دیئے گئے نعروں اور پھر اس کی وزیر اعظم مودی کے ذریعے کی گئی تصدیق تو اپنی جگہ ہے ہی الیکشن کا اعلان ہونے سے قبل نتیش رانے کے ذریعے کی جانے والی شر انگیزیوں نے بھی اپنا اثر دکھایا۔ کچھ اثر دیگر ریاستوں میں ہونے والی فرقہ پرستی کی سیاست کا بھی رہا۔ چونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے منصوبے ’کثیرالمفاسد ‘ہوتے ہیں اس لئے ملک کے دیگر کسی حصہ میں ہونے والی بدامنی کا فائدہ کسی دیگرجگہ پر اٹھانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں وقف ترمیمی بل کا شوشہ بھی مہاراشٹر الیکشن کو ذہن رکھتے ہوئے ہی چھوڑا گیا تھا کیوں کہ یہاں بھی وقف کی بہت ساری پراپرٹی ہے اور اسے’ مسلمانوں کا قبضہ‘ دکھا کر برادران وطن کے ذہن میں جو شہبات پیدا کئے گئے اس نے ووٹنگ والے دن بی جے پی اتحاد کے حق میں کام کردیا۔ آر ایس ایس کے کیڈر نے بھی زمین پر اتر کر بی جے پی کے لئے کام کیا۔ اس کی تصدیق خود دیویندر فرنویس نے کی اور بتایا کہ خاص طور پر ودربھ میں آر ایس ایس کا کیڈر بہت زیادہ منظم اور سرگرم تھا۔ ایسے میں اپوزیشن پارٹیوں کے لئے یہ دہری لڑائی تھی جس میں انہیں شکست ہوئی۔
ویسے بھی یہ اب مصدقہ حقیقت ہو گئی ہے کہ آج کی سیاست میں صرف اقتدار کی اہمیت ہے، اصول اور نظریات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پیسوں کی ریل پیل کے ذریعے، فرقہ پرست موضوعات کو ہوادے کر اور اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھال کر اقتدار پر کسی بھی طرح قبضہ کرنا موجودہ سیاست کا طرہ امتیاز بن گیا ہے۔ اس میں اصول اور نظریات کی سیاست کرنے والی پارٹیاں مشکل ہی سے کامیابی حاصل کرسکیں گی۔ یا تو انہیں اپنے نظریات سے سمجھوتہ کرنا ہو گا یا پھر سیاست سے ہی توبہ کرنی ہو گی۔
مہاراشٹر الیکشن کا اہم فیکٹر
مہاراشٹر انتخابات کے نتائج پرجس فیکٹر نے سب سے زیادہ اثر کیا وہ فرقہ پرستی تھا۔ الیکشن کے دوران یوگی آدتیہ ناتھ کے دیئے گئے نعروں اور پھر اس کی وزیر اعظم مودی کے ذریعے کی گئی تصدیق تو اپنی جگہ ہے ہی الیکشن کا اعلان ہونے سے قبل نتیش رانے کے ذریعے کی جانے والی شر انگیزیوں نے بھی اپنا اثر دکھایا۔ کچھ اثر دیگر ریاستوں میں ہونے والی فرقہ پرستی کی سیاست کا بھی رہا۔ چونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے منصوبہ ’کثیرالمفاسد ‘ہوتے ہیں اس لئے ملک کے دیگر کسی حصہ میں ہونے والی بدامنی کا فائدہ کسی دیگرجگہ پر اٹھانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں وقف ترمیمی بل کا شوشہ بھی مہاراشٹر الیکشن کو ذہن رکھتے ہوئے ہی چھوڑا گیا تھا۔