• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’اِنڈیا‘‘ بمقابلہ این ڈی اے

Updated: December 21, 2023, 8:49 AM IST | Mumbai

قومی دن برائے اقلیتی حقوق کے حوالے سے دوروز قبل ہم نےچند باتیں کہی تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ ملک میں وہ سیاسی عزم پایا ہی نہیں جاتا جو اقلیتی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے۔

INDIA
اِنڈیا

 قومی دن برائے اقلیتی حقوق کے حوالے سے دوروز قبل ہم نےچند باتیں کہی تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ ملک میں وہ سیاسی عزم پایا ہی نہیں جاتا جو اقلیتی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے۔ حکمراں جماعت کی کوشش ہے کہ اقلیتوں کو اقلیت نہ رہنا جائے بلکہ متعدد اقلیتوں کو اکثریت میں ضـم کرکے صرف ایک اقلیت کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس سیاسی حربے کو خود بی جے پی لیڈران نے ایک نام دے دیا تھا ’’۸۰:۲۰‘‘۔ یہ اُس منصوبہ کا بالواسطہ اظہار تھا جسے حکمراں جماعت اپنی سیاست کیلئے کارگر سمجھتی ہے اور ۲۰۱۴ء نیز ۲۰۱۹ء میں اسی بنیاد پر انتخابی فصل کاٹنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اب بھی اس کی کوشش یہی ہے جس کا ثبوت قومی سطح پر طبقاتی مردم شماری کے مطالبہ سے اس کا بدکنا یا اُلجھن محسوس کرنا ہے۔ خود طبقاتی مساوات کو اہمیت دینے (جیسا کہ تین ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے حالیہ انتخاب میں ہوا) اور ہر زاویہ سے اسے ملحوظ رکھنے کی کوشش کے باوجود مودی شاہ کی پارٹی طبقاتی مردم شماری کے نام سے پریشاں ہے کیونکہ ملک کے مختلف طبقات کو اُن کے وجود اور شناخت کے احساس کے ساتھ اپنی معاشی و سماجی حالت کا صحیح معنوں میں اندازہ کرایا گیا تو یہ ’’۸۰:۲۰‘‘کی سیاست کیلئے سم قاتل ہوگا۔
  ۲۰۲۴ء کی جنگ میں کامیابی ناکامی کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہوگا کہ ملک کے الگ الگ طبقات کس طرح ووٹ دیتے ہیں؟ کیا اُسی طرح جس طرح ۲۰۱۴ء نیز ۲۰۱۹ء میں دیا تھا یا اس بار کوئی دوسرا انداز اپناتے ہیں۔ ۲۰۲۴ء کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس بات پر بھی ہوگا کہ اپوزیشن کی پارٹیاں متحد رہ کر اپنی متحدہ شناخت کے ساتھ الگ الگ طبقات کو اپنے ساتھ لینے کو ہدف بناتی ہیں یا پرانی روایات پر قائم رہ کر متحد سے زیادہ منتشر ہونے کو اپنی شناخت بناتی ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے، ہماچل اور کرناٹک ہارنے کے بعد اس کے لیڈروں کے ماتھے کی شکنیں گہری ہوگئی تھیں مگر راجستھان، چھتیس گڑھ اور ایم پی جیتنے کے بعد ان کا حوصلہ ایک بار پھر بلند ہے۔ ان کی جانب سے ماحول سازی بھی شروع ہوچکی ہے۔ ٹائمس ناؤ اور ای ٹی سی کے تازہ سروے کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہئے جس میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے  آئندہ پارلیمانی الیکشن میں تیسری مرتبہ اکثریتی سیٹیں جیت کر حکومت سازی کی پوزیشن میں ہوگا۔ اس سروے کے مطابق این ڈی اے کو ۳۲۳؍ سیٹیں ملیں گی جو کہ ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں کم ہونگی مگر اس کمی سے کوئی فرق نہیں پڑیگا ۔ 
 سروے میں یہ بھی کہا گیاہے کہ جنوب کی جن ریاستوں کی بابت سمجھا جاتا ہے کہ وہاں بی جے پی کی دال نہیں گلتی یا، مثال کے طور پر کرناٹک جہاں طاقت کے بھرپور استعمال کے باوجود پارٹی کو منہ کی کھانی پڑی، وہاں بھی پارٹی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریگی۔ انتخابی نتائج کے بارے میں پیش گوئی درست نہیں ہوتی  کیونکہ عوامی رجحان کو سمجھنا آسان نہیں۔ حالیہ الیکشن میں سمجھا جارہا تھا کہ کانگریس چھتیس گڑھ میں اقتدار بحال رکھنے اور ایم پی کا اقتدار ہتھیانے میں کامیاب ہوگی  مگر ایسا نہیں ہوا۔ جو کانگریس کے حق میں نہیں ہوا وہ بی جے پی کے حق میں ہوجائیگا اس کا امکان بی جے پی کی غیر معمولی طاقت کے پیش نظر یقیناً زیادہ ہے مگر اسے انتخابی ضابطہ کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر انڈیا کہلانے والا اتحاد جم کر جیتنے کے مقصد سے لڑے تو حالات بدل سکتے ہیں، پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔n

congress Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK