• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہندوستان کی مشکوک سیکولر اور جمہوری حیثیت

Updated: January 04, 2022, 5:08 PM IST | Hassan Kamal

ہندوستان کی خواتین خصوصاََ دہلی کی ان مسلم خواتین کو داد دی جانی چاہئے، جنہوں نے ’شاہین باغ‘ کی وہ تحریک شروع کی جس نے ساری دنیا کو اس مسلم دشمن قانون کی طرف متوجہ کر دیا۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے سے پہلے تک ہندوستان کے تمام کے تمام وزرائے اعظم نے کچھ تو اپنے ذاتی کردار اور اس سے بھی زیادہ اپنی حکومت کرنے کے انداز اور اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کے سبب عالمی برادری کو یقین دلائے رکھا کہ ہندوستان ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے۔عالمی برادری کے اس ضمن میں یقین کا یہ عالم تھا کہ ملک میں کئی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ ان میں سے کچھ تو اتنے بڑے تھے کہ گلوبل میڈیا میں اس کی کافی کوریج بھی ہوئی، لیکن ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری ملک ہونے کی بابت کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ ۲۰۰۲ء کی گجرات مسلم نسل کشی نے ضرور ہندوستان کی سیکولر اور جمہوری حیثیت کو ٹھیس پہنچائی۔ سچ پوچھئے تو ہندوستان کی مذکورہ حیثیت پہلی بار خطرے میں پڑتی اسی وقت دکھائی دی۔  گجرات کی مسلم کشی کو دنیا نے اسی نظر سے دیکھا، جس نظر سے ہٹلر کی یہودی نسل کشی کو دیکھا تھا۔ ہر چند کہ یہ اتنا بڑا اور اتنا بہیمانہ واقعہ نہیں تھا۔ دنیا کو پہلی بار یہ شک ہوا کہ ہندوستان اب بھی گاندھی جی والا ہندوستان رہ گیا ہے یا بدل گیا ہے۔ گجرات کے فسادات کے وقت نریندر مودی صوبہ کے چیف منسٹر تھے۔ ہر چند کہ ہندوستان میں ہونے والی ہر جانچ اور ہر انکوائری کمیشن نے نریندر مودی کو کلین چٹ دے دی ،لیکن اس چٹ کو کبھی قابل اعتبار نہیں سمجھاگیا۔ یہی وجہ کہ جب امریکہ جانے کے لئے ویزا مانگا تو امریکی وزارت خارجہ کی ہدایت پر انہیں ویزا دینے سے صاف انکار کر دیا گیا۔یہ اپنی قسم کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی ہندوستانی سیاسی لیڈر کو امریکی ویزا  دینے سے انکار کیا گیا ہو، ہمیں یاد ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس پر امریکہ سے احتجاج بھی کیا تھا۔ نریندر مودی کو امریکی ویزا اسی وقت ملا، جب وہ وزیر اعظم بن گئے۔ وزیر اعظم ہونے کی وجہ سے پروٹوکول کے سبب انہیں سفارتی ویزا دیاگیا ہے۔  ان کے وزیر داخلہ امیت شاہ وزیر داخلہ ہونے کے باوجود امریکہ یا برطانیہ نہیں جا سکتے۔ برطانیہ میں مبینہ طور پر ان کے خلاف ایک ایف آئی آر بھی درج ہے۔ پھر بھی ۷۰ ؍سال سے بنا ہواہندوستان کا سیکولر اورجمہوری امیج آسانی سے ٹوٹنے والا نہیں تھا اور نریندر مودی نے اس کا خوب فائدہ بھی اٹھایا۔ انہوں نے خاص طور پرکانگریس کی دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو کئی با ر طعنے دیئے کہ دنیا انہیں نہیں بی جے پی اور خود نریندر مودی کو جمہوریت اور سیکولرزم کا علم بردار سمجھتی ہے۔    ہندوستان کے سیکولر امیج کو دنیا میں مشکوک بنانے میں سب سے بڑا رول سی اے اے نامی اس بیہودہ اور بے مغز قانون کو کسی منطق کے بغیر لوک سبھا سے منظور کر والیا گیا۔ قانون سے مسلم دشمنی کا تعفن پھوٹا پڑ رہا تھا۔ اس قانون پر پہلا رد عمل امریکہ کے اس نیم سرکاری ادارے کی طرف سے آیا جو دنیا میں مذہبی آزادی کے معاملہ پر نظر رکھتا ہے۔ لیکن ہندوستان کی خواتین خصوصاًدہلی کی ان مسلم خواتین کو داد دی جانی چاہئے، جنہوں نے ’شاہین باغ‘ کی وہ تحریک شروع کی جس نے ساری دنیا کو اس مسلم دشمن قانون کی طرف متوجہ کر دیا۔ تحریک اتنی زبردست لیکن اتنی پر امن تھی کہ مغربی ممالک کے انسانی حقوق کے ادارے بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ مودی سرکار کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ رد عمل اتنا شدید اور اتنے بڑے پیمانے پر بھی ہو سکتا تھا۔ ہوتا بھی کیسے۔ بی جے پی میں چانکیہ سمجھے اور کہے جانے والوں کی ذہنی اور علمی سطح تو عقلمندی اور دانشمندی کے حوالے سے غریبی کی سطح کے بہت نیچے پائی جاتی ہے۔ شاہین باغ ہندوستان کے ہر اس شہر میں نظر آنے لگا جہاں مسلمانوں کو یہ ادراک ہوچکا تھا کہ اس قانون کی تہہ میں مسلمانوں سے نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ دنیا کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ مودی سرکار آر ایس ایس کے فسطائی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور یہ فسطائیت نازی فلسفہ کا ہندوستانی ترجمہ ہے۔ قانون تو نہیں نافذ کیا جا سکا نہ نافذ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ مودی سرکار کو اقوام متحدہ کو یہ تحریری یقین دہانی دینا پڑی ہے کہ یہ قانون نافذ نہیں کیا جائے گا۔لیکن اس غیر دانشمندانہ اقدام نے ہندوستان کی ۷۰؍ سالہ قدیم سیکولر امیج کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ امیت شاہ ہر چھے ماہ کے بعد یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس قانون کو نافذ کرنے کے لئے جو ضوابط بنائے جانے تھے وہ ابھی تک نہیں بن سکے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ اقوام متحدہ کو دی جانے والی تحریری یقین دہانی ہی ہے۔ ہندوستان کے سیکولر امیج کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری سپریم کورٹ پر بھی عائد ہوتی ہے، سپریم کورٹ کے تین سابق چیف جسٹسوں کے زمانے میں سنائے جانے والے چند فیصلوں نے بھی دنیا کو تشویش میں مبتلا کیا۔ ان میں خاص طور پر قابل ذکر بابری مسجد،رام جنم بھومی کے مقدمہ کا فیصلہ ہے۔ دنیا یہ سن کر حیران رہ گئی کہ ہر چند کہ اس قسم کے کوئی شواہد نہیں مل سکے کہ بابر کے سپہ سالار میرباقی نے بابری مسجد کسی مندر کو مسمار کرکے اس کی جگہ تعمیر کی تھی اور یہ  کے اس کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ بھگوان رام  کا جنم عین اسی مقام پر ہوا تھا جہاں مانا یا بتایا جاتا ہے۔ پھر بھی چونکہ یہ کروڑوں ہندوئوں کے اعتقاد کا معاملہ ہے اس لئے عدالت حکم دیتی ہے کہ بابری مسجد کو پوری طرح مسمار کر کے وہاں رام کا مندر بنایا جائے۔    جہاں تک ہندوستان کی جمہوری حیثیت کے مشکوک ہونے کا تعلق ہے۔ یہ بتا دینا کافی ہے کہ دنیا کے جمہوری ہونے کا دعویٰ کرنے والے ممالک میں جمہوریت کی کیفیت کا جائزہ لینے والے ادارے نے ہندوستان کو مکمل جمہوریت کے ملک کے خانے سے ہٹا کر جزوی طور پر جمہوری ملک کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ افسپا جیسے قوانین ہیں۔ ریاست جموں کشمیر کو جس طرح وہاں کے عوام کی مرضی جانے بغیر تین حصوں میں تقسیم کرنے کا عمل کیا گیا اس نے بھی ہندوستان کے جمہوری امیج کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ کشمیر کے عوام کو جس طرح مہینوں تک گھروںمیں قید رکھا گیا ، اسے بھی دنیا میں غیر جمہوری عمل سمجھا گیا ہے۔ قوم سے غداری کے نام پر سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو مقدمہ چلائے بغیر مہینوں اور برسوں جیلوں میں بند رکھنے کے واقعات کو بھی جمہوریت کے پیمانے پر درست نہیں مانا جا رہا ہے۔ ہریانہ میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکنا ، نمازوں میں خلل ڈالنا اور مساجد کو مسمار کرنے کی واردا توں نے بھی ہندوستان کی جمہوری حیثیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اور اب تو گرجا گھروں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عیسائیوں کو بھی مذہبی تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ تمام باتیں امریکہ اور یورپ میں برابر رپورٹ ہو رہی ہیں۔ اور ہندوستان کی جمہوری اور سیکولر حیثیت پر شک ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK