• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قرض وصولی ایجنٹوں کا غیرانسانی رویہ اور آر بی آئی کی گائیڈ لائن

Updated: February 16, 2025, 2:32 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

گزشتہ دنوں شولا پور میں ایسا ہی ایک سنگین واقعہ پیش آیا جس میں بینک کے ایجنٹوں نے قرض کی وصولی کیلئے ایک آدمی کے ۱۷؍ سالہ بیٹے کا اغوا کرلیا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

بینکوں سے قرض لینے والے صارفین کے تئیں قرض وصولی ایجنٹوں کا انسانیت سوز رویہ ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔ گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے شولاپور میں ایسا ہی ایک حادثہ رونما ہوا جو قرض وصولی ایجنٹوں کی سنگ دلی اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے والے رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ میڈیا ذرائع سے منظر عام پر آنے والی خبر کے مطابق شولا پور کے دھیرج رنگڈال نے ایک بینک سے ساڑھے چھ لاکھ کا قرض لیا تھا۔ اس قرض کی ادائیگی کے عمل میں تین ماہانہ قسطیں نہ جمع کر پانے کے سبب قرض وصولی ایجنٹوں نے دھیرج کے ۱۷؍سالہ بیٹے کو اغوا کر لیا۔ دھیرج کی بیوی سریکھا کی شکایت پر پولیس حرکت میں آئی اور مغویہ کو آزاد کرانے کے ساتھ ہی تین اغوا کاروں دیوا جادھو، شکیل بوندے اور عمران شیخ کو حراست میں لیا۔ اس معاملے میں جو سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو ہے وہ یہ کہ ان اغوا کاروں نے بیٹے کو آزاد کرنے کے عوض میں دھیرج سے مبینہ طور پر دس ہزار روپے کا تاوان بھی طلب کیا تھا۔ قرض وصولی ایجنٹوں کی دیدہ دلیری کی یہ روداد صرف اسی ایک واقعہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اکثر اس طرح کے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ قرض لینے والے صارفین کیلئے قرض ادائیگی ایسا جی کا جنجال بن جاتی ہے جو ان کے چین و سکون کو غارت کر دیتی ہے۔ 
قرض وصولی ایجنٹوں کا غیر انسانی رویہ نہ صرف قرض گیر اور قرض خواہ کے درمیان پیچیدگی پیدا کرتا ہے بلکہ بسا اوقات قرض گیر کو خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ اس ضمن میں کسانوں کی خودکشی کا ذکر خصوصی طور پر کیا جا سکتا ہے۔ این سی آربی کے ذریعہ کسانوں کی خودکشی کا جو ڈیٹا تیار کیا گیا ہے اس میں بھی ۸۰؍ فیصد اموات کا سبب بینکوں کے قرض کو قرار دیا گیا ہے۔ بینکوں سے قرض لینے والے کسان بروقت قرض ادا نہ کر پانے کے سبب وصولی ایجنٹوں کے ہتک آمیز رویے سے اس قدر دل برداشتہ ہو جاتے ہیں کہ انھیں موت کو گلے لگانا آئے دن کی رسوائی سے بہترلگتا ہے۔ کاشت کاری کے علاوہ دیگر ضرورتوں کیلئے بینک سے قرض لینے والوں کے تئیں بھی قرض وصولی ایجنوں کا رویہ عموماًایسا ہی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں آر بی آئی نے جو گائیڈ لائن تیار کی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ اگر ایجنٹ قرض وصولی کے عمل میں انسانی اخلاقیات سے تجاوز کرے تو اس کیخلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ 
آربی آئی کی گائیڈ لائن میں قرض خواہ اور قرض گیر کے باہمی روابط میں انسانی اخلاقیات اور دوستانہ رویہ کو ترجیح دی گئی ہے۔ گائیڈ لائن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بینک قرض وصولی پر مامور ایجنٹ کی تفصیل فراہم کرنے کے بعد ہی ایجنٹ کو قرض گیر سے ملاقات کیلئے بھیجے گا اور ملاقات کے وقت بینک کا اتھاریٹی لیٹر اور نوٹس ایجنٹ کے پاس لازمی طور پر ہوگا۔ ایجنٹ صبح ۷؍ بجے سے شام ۷؍ بجے کے درمیان ہی صارف سے ملاقات یا فون کر سکے گا۔ اگر قرض لینے والے نے بینک سے کوئی شکایت کی ہے تو جب تک اس شکایت کا تصفیہ نہیں ہو جاتا، بینک وصولی ایجنٹ کو قرض گیر کے پاس نہیں بھیجے گا۔ آر بی آئی کی گائیڈ لائن میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ دو ماہانہ قسطوں کی عدم ادائیگی پر بینک صارف کو ریمائنڈر بھیجے گا اور اگر قرض ہوم لون کی صورت میں ہے تو تین قسطوں کی عدم ادائیگی پر بینک نوٹس بھیجنے کا مجاز ہوگا۔ گائیڈ لائن کے یہ نکات اس امر کویقینی بناتے ہیں کہ قرض گیر سے قرض وصولی کے عمل میں ایجنٹوں کے ذریعہ کوئی ایسا غیر انسانی اقدام نہیں کیا جائے گا جو صارف کیلئے توہین کا باعث ہو۔ 
اس ضمن میں اب جو بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ آر بی آئی کی گائیڈ لائن پر عمل کے بجائے وصولی ایجنٹ ایسا رویہ کیوں اختیار کرتے ہیں جو صارف کی رسوائی اور بعض دفعہ اس کی موت کا سبب بنتا ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قرض گیر جس علاقے کا باشندہ ہوتا ہے ایجنٹ اس علاقہ کی قدآور شخصیات سے اکثر ایسی ساز باز کر لیتے ہیں کہ ان کی دیدہ دلیری پر پولیس یا مقامی انتظامیہ کوئی کارروائی کرنے کے بجائے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاسی مداخلت بھی اس معاملے کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ بینک افسران اپنے رسوخ اور مالی وسائل کا استعمال کر کے وصولی ایجنٹوں کو ان کے غیر انسانی رویے کے سبب پیش آنے والی ان ممکنہ قانونی کارروائیوں سے بھی بچا لیتے ہیں جس کا التزام ملک کے تعزیزی قوانین میں ہے۔ وصولی ایجنٹوں کے انسانیت سوز رویے کی زد پر بیشتر وہی صارف آتے ہیں جو آر بی آئی کی گائیڈ لائن سے ناواقف ہوتے ہیں یا پھر بینک سے قرض لینے کے عمل میں ایسی عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان تفصیلات پر مطلق دھیان نہیں دیتے جو قرض کے حصول اور ادائیگی کے عمل سے متعلق ہوتی ہیں۔ بینکوں کے ذریعہ ان تفصیلات میں اکثر ایسی پیچیدہ اور لچک دار زبان استعمال کی جاتی ہے جس کے حتمی مفہوم کو سمجھنا بھی صارف کیلئے محال ہوتا ہے۔ قرض کے حصول میں صارف کی ایسی عجلت پسندی بعد از اں اس کیلئے ایسا درد سر بن جاتی ہے جس کے نجات پانے کی تگ و دو میں زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ 
اس مسئلے سے بچنے کیلئے بینک صارفین کو قرض سے متعلق ان ضابطوں کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے جن سے سرسری گزرنا بعض اوقات ان کیلئے پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔ قانونی سطح پر بینک اور صارفین کے متعینہ حقوق سے بھی آگاہی ضروری ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ بلاضرورت یا ایسی ضرورتوں کیلئے قرض لینے سے احتیاط کرنا چاہئے جن سے زندگی کے معمولات پر کوئی ایسا منفی اثر نہ پڑتا ہو جو زندگی کے بنیادی امور کی تکمیل میں رخنہ اندازی کرے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنے سماجی رتبے کو بڑھانے اور شان و شوکت کی نمائش کے وسائل جمع کرنے کی خاطر بینک سے قرض لیتے ہیں اور پھر اس قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول والا رویہ انھیں نفسیاتی کرب میں مبتلا کرنے کے ساتھ ہی ان کی سماجی آبرو کو بھی معرض خطر میں ڈال دیتا ہے۔ 
تعلیم، مکان یا کسی سنگین مرض کے علاج کیلئے قرض لیناکچھ غلط نہیں ، لیکن مادیت پرستی کے دام میں الجھ کر قرض کے دم پر آرائشی و نمائشی زندگی کے اسباب جمع کرنا عقلمندی نہیں۔ مکان انسان کی بنیادی ضرورت ہے لیکن مکان کی تزئین کاری میں لاکھوں روپے خرچ کر دینا اور اس کیلئے بینک یا کسی اور ذرائع سے قرض لینا پریشانیوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اسی طرح قرض لے کر گاڑیوں کا شوق پورا کرنا بھی نہ صرف زندگی کی بنیادی ضرورتوں پر اثرانداز ہو سکتا ہے بلکہ اس سے نئے مالی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ معاشرہ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کی پوری زندگی کرائے کے مکان میں گزر جاتی ہے لیکن دروازے پر گاڑی کھڑی کرنا واجب سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات اس وجوب کے سبب ان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ عہد حاضر کے صارفی سماج میں ایسی کئی مثالیں مل جائیں گی جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ پرتکلف اور پرتعیش زندگی کا شوق اکثر انسان کو پیچیدہ مالی مسائل میں مبتلا کر دیتا ہے۔ انہی مسائل میں ایک مسئلہ بینک کے قرض کی ادائیگی میں پیش آنے والی پریشانیاں ہیں جو قرض گیر کی رسوائی اور توہین کا سبب بنتی ہیں۔ 
اس سچائی کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ جس طرح زندگی کے دیگربنیادی معاملات میں عوامی سطح پر یکسانیت نہیں ہے اسی طرح دنیا کے سب سے بڑے جمہوری نظام میں مالی معاملات کی نوعیت بھی یکساں نہیں ہے۔ بینکوں کے قرض کے حوالے سے دیکھیں تو اقتدار سرمایہ کاروں، صنعتکاروں اور بڑے تاجروں کے لاکھوں کروڑ روپے کے قرض معاف کردیتا ہے لیکن چھوٹے قرضداروں کیلئےایسی فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ چھوٹے قرض داروں کے تئیں قرض وصولی ایجنٹوں کا غیر انسانی رویہ نہ صرف قرض گیر کیلئے پریشانی کا سبب بنتا ہے بلکہ اس سے سماجی انتظامیہ کی بے حسی بھی اجاگر ہوتی ہے۔ قرض وصولی میں ایجنٹوں کے ایسے رویے پر فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس اجل بھوئیاں نے کہا تھا کہ بینکوں کے یہ ایجنٹ غنڈوں کا گروہ لگتے ہیں جو سماجی سطح پر خلفشار برپا کرتے ہیں۔ وصولی ایجنٹوں کی اس غنڈہ گردی سے نجات حاصل کرنے کیلئے پولیس، انتظامیہ اور ارباب اقتدار کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK