یوپی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کا اُردو زبان کو کٹھ ملائیت سے جوڑنا اور راجستھان کے محکمہ ٔ تعلیم کا اُردو کی جگہ سنسکرت کی تعلیم کا حکم جاری کرنا سوائے اس کے اور کچھ ظاہر نہیں کرتا کہ اُردو زبان کے تعلق سے ہمارے ملک کے سیاستدانوں کے دل صاف نہیں ہیں ۔
یوپی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کا اُردو زبان کو کٹھ ملائیت سے جوڑنا اور راجستھان کے محکمہ ٔ تعلیم کا اُردو کی جگہ سنسکرت کی تعلیم کا حکم جاری کرنا سوائے اس کے اور کچھ ظاہر نہیں کرتا کہ اُردو زبان کے تعلق سے ہمارے ملک کے سیاستدانوں کے دل صاف نہیں ہیں ۔یہ بیانات اور احکامات شمالی ہندوستان میں جاری ہوئے ہیں اور اس دور کی تاریخ لکھنے والا مورخ، اگر وہ جانبدارنہیں ہے، تو حیران و ششدر ہوگا کہ جس سرزمین نے اُردو کو جنم دیا، پالا پوسا، بڑا کیا اور اس قابل بنایا کہ وہ دُنیا کی دیگر زبانوں کی فہرست میں اپنی موجودگی درج کراسکے،اُسی سرزمین پر اس زبان کو بُرا بھلا کہا گیا اور اُس کی تدریس کو روکا گیا۔ یہ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر اسے جنم دے کر اور ملک کی دیگر زبانوں میں اسے شامل کرکے وطن عزیز نے اُردو پر احسان کیا ہے تو اس ملک کو بہت کچھ دے کر اُردو نے بھی ملک و قوم پر احسان کیا ہے جس کے ہزار شواہد موجود ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائزہے۔ اس میں اضافہ کرکے اگر یہ کہا جائے کہ جنگ، محبت اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے تو ہم کسی حد تک مان بھی لیں مگراس استثنیٰ کے ساتھ کہ ’’سب کچھ‘‘ میں آپ بہت کچھ شامل کرنا چاہیں تو وہ آپ کا عمل ہے مگر ملک کے وہ تمام لوگ جو بشمول اُردو ہر ہندوستانی زبان سے پیار کرتے ہیں اور ہر زبان کو علم و ادب کا خزینہ تصور کرتے ہیں وہ اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیں گے کہ سیاست کے داؤ پیچ میں زبانوں کو گھسیٹا جائے اور ان کے خلاف بیان بازی کی جائے۔
یاد رہنا چاہئے کہ بانیں آسمان سے نہیں اُترتیں ، وہ زمین پر پیدا ہوتی ہیں اور پھلتی پھولتی ہیں بالکل اُن پودوں کی طرح جو زمین سے اُبھرتے ہیں اور ماحول سے اپنی خوراک حاصل کرکےتناور درختوں میں تبدیل ہوتے ہیں ۔ اُردو کو اس سرزمین اور یہاں کے ماحول نے اُبھرنے،خوراک فراہم کی اور تناور درخت میں تبدیل ہونے کا موقع دیا۔ اس کی رگ رگ میں ہندوستانیت رواں دواں رہتی آئی ہے، اسے نہ تو کٹھ ملائیت سے جوڑا جاسکتا ہے نہ ہی کسی ریاست میں اس کی تدریس روکی جاسکتی ہے۔ ایسے دور میں جب تمام ہندوستانی زبانوں پر انگریزی کا خطرہ منڈلا رہا ہو، ہندوستانی قوم کسی زبان کو ملا ّ کی زبان اور کسی کو پنڈت کی زبان کہہ کر اپنی ہی زبانوں کے ساتھ بھید بھاؤ کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اپنی تہذیب اور اپنے علوم کی حفاظت کیلئے ازحد ضروری ہے کہ تمام ہندوستانی زبانوں کے تحفظ کیلئے کمربستہ ہوا جائے خواہ وہ اُردو ہو یا سنسکرت، تمل ہو یا ملیالم، بنگالی ہو یا اُڑیہ۔
راجستھان کا محکمۂ تعلیم اگر سنسکرت کی تدریس شروع کرنا چاہتا ہے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہئے مگر اُردو کی قیمت پر کیوں ؟ ہم تو کہتے ہیں کہ کسی بھی زبان کی قیمت پر کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے برخلاف، ہمیں اپنی نئی نسل کو زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کی ترغیب دینی چاہئے جن میں غیر ملکی زبانیں بالخصوص انگریزی بھی شامل ہو۔ انگریزی اگر عالمی رابطے کی زبان ہے تو ہمارے ہر نوجوان کو انگریزی میں بھرپور مہارت حاصل کرنی چاہئے مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی زبانوں سے بھی محبت کرنی چاہئے اور ہر ہندوستانی زبان کا احترام کرنا چاہئے کیونکہ ہماری یہ زبانیں ہمارا اثاثہ اور سماجی تنوع کاآئینہ ہیں جس پر ہم بجا طور پر فخر کرتے ہیں ۔
زبانوں میں بھیدبھاؤ،کسی پر عنایت اور کسی سے مخاصمت متعصبانہ عمل ہے اور اُردو تو ہماری ’’ لنگوا فرینکا‘‘ رہی ہے، یوپی اور راجستھان اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں ۔