Inquilab Logo Happiest Places to Work

’ہم طالب ِشہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام! ‘

Updated: April 16, 2025, 1:29 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

پوری دُنیا میں تہلکہ مچانے والے موجودہ صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اب تک جو اقدامات اور کارروائیاں کیں ، اُن کا کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اُنہیں اس اعتبار سے ضرور فائدہ ملا ہے کہ اُن کا نام عالمی اخبارات اور نیوز چینلوں کی سرخیوں پر چھایا رہا

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 پوری دُنیا میں  تہلکہ مچانے والے موجودہ صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اب تک جو اقدامات اور کارروائیاں  کیں ، اُن کا کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اُنہیں  اس اعتبار سے ضرور فائدہ ملا ہے کہ اُن کا نام عالمی اخبارات اور نیوز چینلوں  کی سرخیوں  پر چھایا رہا اور وہ اُردو کے مشہور شاعر مصطفیٰ خاں  شیفتہ ؔکے اس خیال کی روزانہ توثیق کرتے رہے کہ ’’ہم طالب ِشہرت ہیں  ہمیں  ننگ سے کیا کام= بدنام اگر ہوں  گے تو کیا نام نہ ہوگا؟‘‘۔ نام تو ہوا اور خوب ہوا مگر ’’بد‘‘کے اضافے کے ساتھ۔ جتنے بھی ملکوں  کو اُن کی ٹیرف پالیسی کا ہدف بننا پڑا، وہ یا تو شدید ردعمل کا اظہار کرنے پر مجبور ہوئے یا ٹرمپ انتظامیہ کو درِ پردہ مناتے رہے یا کسی اور اُدھیڑ بن میں  رہے۔ الگ الگ ملکوں  کی الگ الگ حکمت عملی تھی مگر ناراض سب تھے۔
  کسی نے سوچا نہیں  تھا کہ ٹرمپ کا نجانے کس زمانے کا نزلہ اُن پر اس طرح گرے گا کہ نزلہ زلزلہ ثابت ہوگا۔ ٹیرف پالیسی کتنی ناقص تھی اس کا اندازہ لگانے میں  خود ٹرمپ نے دیر نہیں  کی۔ اسی لئے اس پالیسی کے نفاذ پر تین ماہ کی روک لگانے میں  بھی انہوں  نے دیر نہیں  کی۔ لگتا ہے اُن کی سمجھ میں  آچکا ہے کہ عالمی اُمور میں  نہ توسنک نہیں  چلتی اور نہ کوئی سنکی لیڈر زیادہ عرصہ تک غلط پالیسیوں  کے ساتھ منصہ شہود پر رہ سکتا ہے۔ یہ بات ٹرمپ سمجھ میں  آچکی ہے اس کا ثبوت ٹیرف پالیسیوں  پر تین ماہ کی روک سے ملتا ہے۔ ایسے دَور میں  جب تمام ممالک ایک دوسرے سے مربوط ہیں ، اپنے مفاد میں  کوئی بھی ملک یکطرفہ فیصلے نہیں  کرسکتا۔ افسوس کہ سپرپاور ہونے کے زعم میں  مبتلا لوگ، جنہیں  دُنیا کی بھی فکر کرنی چاہئے، اکثر بہک جاتے ہیں ۔ خود کو عظیم ثابت کرنے کے چکر میں پڑنے سے پہلے اُنہیں  عظمت کا معنی جان لینا چاہئے۔
 ٹیرف پالیسی کی وجہ سے بہت سے ممالک ناراض ہوئے مگر کیا امریکی عوام خوش تھے؟ کیا وہ محسوس کررہے تھے کہ ٹرمپ سب ٹھیک کچھ کر رہے ہیں  ، وہ سب ضروری ہے اور ایسا ہی کیا جانا چاہئے تھا؟ اس کیلئے حالیہ سر ویز پر نگاہ دوڑانی ہوگی کہ ان میں  امریکی عوام نے کیا رائے دی ہے۔ 
 نیشنل یونیورسٹی آف میساچوٹس کے اَمہرسٹ پول سے ظاہر ہوا کہ اکثر امریکی اُن کی سہ ماہی کارکردگی سے خوش نہیں ۔ اس پول میں ، اطمینان کا اظہار کرنے والوں  کی تعداد ۴۴؍ فیصد اور بے اطمینانی ظاہر کرنے والوں  کی تعداد ۵۱؍ فیصد تھی۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اب بھی بہت سے امریکیوں  کی آنکھ نہیں  کھلی ہے۔ مگر ابھی اُن کی صدارت کو ۱۰۰؍ دن بھی نہیں  ہوئے ہیں ۔ مزید کچھ وقت جائیگا اور امریکی معیشت کچھ ایسے گل کھلائے گی جن کی توقع نہیں  تھی تب اُنہیں  دھچکا لگے گا اور وہ غیر معمولی ٹرمپ نوازی کے اپنے کئے پر پچھتانا شروع کرینگے۔ 
 ایک اور سروے سے، جو تین اداروں  پی بی ایس نیوز، این پی آر اور مارِسٹ پول،نے مشترکہ طور پر کیا تھا، یہ انکشاف ہوا کہ ٹرمپ کی پالیسیوں  سے ۵۴؍ فیصد امریکی نالاں  ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی سربراہی میں  امریکہ غلط سمت میں  جارہا ہے۔ نالاں  یا ناراض امریکیوں  کی تعداد زیادہ ہے مگر بہت زیادہ نہیں ، البتہ ناراضگی قدم جمانے لگی ہے۔ ٹرمپ بھلے ہی کسی کی سنتے اور مانتے نہ ہوں مگر عوامی ناراضگی کو نظر انداز نہیں  کرسکتے۔ اسے نظرانداز کیا تو خود نظر انداز ہوجائینگے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK