ہندوستانی سماج پر سیاست اتنی حاوی ہوگئی ہے، اتنی خبریں روزانہ پیدا ہو رہی ہیں ، اتنے تنازعات جنم لے رہے ہیں ، اتنے بیانات اور ان کے جوابات اور پھر بیانات منظر عام پر آرہے ہیں اور آتے رہتے ہیں کہ خبروں کا معاملہ اس موسلا دھار بارش جیسا ہوگیا ہے جو تیز بھی ہوتی ہے، شدید بھی اور جاری ہی رہتی ہے، تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ ا
ہندوستانی سماج پر سیاست اتنی حاوی ہوگئی ہے، اتنی خبریں روزانہ پیدا ہو رہی ہیں ، اتنے تنازعات جنم لے رہے ہیں ، اتنے بیانات اور ان کے جوابات اور پھر بیانات منظر عام پر آرہے ہیں اور آتے رہتے ہیں کہ خبروں کا معاملہ اس موسلا دھار بارش جیسا ہوگیا ہے جو تیز بھی ہوتی ہے، شدید بھی اور جاری ہی رہتی ہے، تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ اس میں بھلے ہی بہت سے لوگ دلچسپی لیتے ہوں مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جو اکتانے لگے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی میڈیا میں انہیں وہ چیزیں پڑھنے کو نہیں ملتیں جو وہ پڑھنا چاہتے ہیں ۔ یہ کیفیت گرفتار بلا جیسی ہے کیونکہ موبائل پاس میں ہونے کی وجہ سے وہ چاہتے ہوئے بھی ان غیر مطلوبہ خبروں سے دور نہیں ہو پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ بھی ہورہا ہے کہ کچھ محتاط لوگ موبائل کی خبروں کی جانب تاکتے بھی نہیں ہیں ۔ وہ اپنے پسندیدہ اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں جو انہیں ان کی پسند، ان کے مفاد اور ان کی ترجیحات کے مطابق خبریں شائع کرتے ہیں مگر خبریں چونکہ ایک خاص مشن اور ایجنڈا کے تحت جاری ہوتی ہیں اس لئے ان کی افراط اور بہتات جوں کی توں ہے۔ ان خبروں میں موجود تفرقہ پروری، تنازعات، الزام تراشی اور بے بنیاد باتیں مشتہر ہوتی رہتی ہیں اور جو دلچسپی نہیں لیتا اس کیلئے بھی پریشانی کا باعث بنتی ہیں ۔
اس کی وجہ سے سماج کا بہت نقصان ہورہا ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سماج کے بہت سے طبقات ’’تنازعاتی خبروں ‘‘ کی وجہ سے خود کو الجھا ہوا محسوس کرتے ہیں ۔ وہ یہ تو جانتے ہیں کہ بلا وجہ کے تنازعات عوام کا ذہن بھٹکانے کیلئے ہوتے ہیں تاکہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری وغیرہ کا سوال نہ اٹھائیں اور غیر ضروری چیزوں میں الجھے رہیں ۔ بلا وجہ کے تنازعات کے پس پشت جو مقصد ہے وہ عیاں ہونے کے باوجود سماج کے یہ طبقات اس لئے پریشان رہتے ہیں کہ جو تعمیری کام ہونے چاہئیں وہ موقوف رہتے ہیں اور ان پر گفتگو کا نہ تو موقع رہتا ہے نہ ہی کوئی ان پرگفتگو کرنا چاہتا ہے۔ نشہ خوری، جہیز کا رجحان، خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، ان کا استحصال، مزدوروں کے معاملات، اقل ترین اجرت کے مسائل، پبلک ٹرانسپورٹ کی دقتیں ، ذخیرہ اندوزی، کالا بازاری، بنیادی تعلیم سے لے کر اعلیٰ و پیشہ جاتی تعلیم تک، وہ تمام شعبہ جات جن سے سماج کی فلاح وابستہ ہے، پس پشت چلے گئے ہیں ۔ سماج میں منشیات کی لعنت بڑھتی جا رہی ہے، طلبہ میں خود کشی کے واقعات روز افزوں ہیں ، مڈل کلاس لوور مڈل کلاس کی جانب پھسل رہا ہے اور لوور مڈل کلاس خط افلاس کے قریب پہنچ رہا ہے، یہ اور ایسے کتنے مسائل و معاملات ہیں جن سے سماج کی فلاح وابستہ ہے مگر ان کیلئے کس کے پاس وقت ہے، کہاں موقع ہے اور کون ان پر گفتگو کررہا ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں اس کا بیڑا اٹھاتی ہیں مگر حالات ایسے بنا دیئے گئے ہیں کہ ان کیلئے کھل کر کام کرنا ممکن نہیں رہ گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز نہایت مشکل دور سے گزر رہا ہے اور حقیقی موضوعات پر جعلی موضوعات کی یورش غضب ڈھا رہی ہے۔ ان حالات میں نہ تو معیشت پھل پھول سکتی ہے نہ سماج ترقی کرسکتا ہے۔ ممکن ہے معیشت طے شدہ اہداف کو پا لے مگر سماج جس تنزلی کا شکار ہے اس کو بچانا دن بہ دن زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔