Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

خلاء بازوں کو زمین مبارک

Updated: March 19, 2025, 1:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ہندوستانی نژاد امریکی خلاء باز سنیتا ولیمز، اُن کے ساتھی بوچ ولمور اور اُن کے دیگر ہمراہیوں کیلئے خلاء سے زمین پر آنا اس لئے بھی مژدۂ جانفزا ہوگا کہ وہ تکنیکی وجوہات کی بناء پر واپسی کے طے شدہ وقت کے کئی ماہ بعد لوَٹ رہے ہیں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ہندوستانی نژاد امریکی خلاء باز سنیتا ولیمز، اُن کے ساتھی بوچ ولمور اور اُن کے دیگر ہمراہیوں   کیلئے خلاء سے زمین پر آنا اس لئے بھی مژدۂ جانفزا ہوگا کہ وہ تکنیکی وجوہات کی بناء پر واپسی کے طے شدہ وقت کے کئی ماہ بعد لوَٹ رہے ہیں  ۔ اُن کی واپسی ۹؍ ماہ کے بعد ہورہی ہے جبکہ انہیں   ہفتے عشرہ میں   لوَٹ آنا تھا۔ جس وقت آپ یہ سطریں   پڑھ رہے ہوں   گے، سنیتا ولیمز زمین پر واپس آچکی ہوں   گی۔ 
 اس میں   شک نہیں   کہ طے شدہ وقت سے زیادہ بلکہ کافی زیادہ عرصہ تک خلاء میں   رہنا خطرات سے پُر تھا مگر ان خلاء بازوں   کا حوصلہ تھا جس نے اُنہیں   خود کو سنبھالنے اور مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے پُرجوش رکھا۔ سنیتا اور اُن کے ساتھیوں   نے حوصلہ کھوئے بغیر اپنا مشن جاری رکھا بلکہ اس دوران خود کو ہشاش بشاش رکھنے کی بھی قابل قدر کوشش کی۔ مگر اَب زمین پر لوٹنے کے بعد خود کو کشش ثقل، زمینی آب و ہوا، موسمی اثرات اَور دیگر خصوصیات سے ہم آہنگ کرنا بھی اُن کیلئے آسان نہیں   ہے۔ زمین پر آنے کے بعد یقیناً فوری طور پر اُن کا طبی معائنہ کیا جائیگا اور جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی نقطۂ نظر سے انہیں   کئی باتوں   کی تربیت دی جائیگی۔ اس میں   کئی دن لگیں   گے اس کے بعد ہی اُنہیں   اس قابل قرار دیا جائیگا کہ وہ گھر جاسکیں  ۔ اس سفر کو، اس طرح محسوس کیجئے کہ اگر ہم آٹھ گھنٹے کا ہوائی  سفر کرتے ہیں   تو کم از کم ایک دن یا ایک رات خود کو جھولتا ہوا محسوس کرتے ہیں  ۔ ہوائی سفر کی اس تھکان کو ’’جیٹ لیگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ہوائی جہاز ہی پر موقوف نہیں  ، ریل کا سفر بھی ۳۶؍ یا ۴۸؍ گھنٹوں   کا ہو تو سفر کی تکمیل کے بعد بھی انسان خود کو سفر ہی میں   محسوس کرتا ہے۔ ہمارے چند گھنٹے اور سنیتا ولیمز کے کئی ہزار گھنٹے۔ کوئی موازنہ ہی نہیں   ہے۔ اس لئے اُنہیں   خود کو زمینی ماحول سے ہم آہنگ کرنے میں   یقیناً وقت لگے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ زمین پر لوَٹنے والے خلاء بازوں   کیلئے اپنا توازن سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے جس میں   چلنے اور مڑنے کی دقتیں   شامل ہیں  ۔ یہی نہیں   اُنہیں   چکر آتا ہے اور نگاہ مرکوز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مگر سنیتا اور اُن کے ساتھیوں   نے جس بلند حوصلے کا مظاہرہ خلاء کی بلندی اور وہاں   کے غیر یقینی حالات میں   کیا وہی اُنہیں   زمینی ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں   بھی مدد دیگا۔ ہمارا خیال ہے کہ اُنہیں   زیادہ دقت نہیں   ہوگی۔ اُن کے استقبال کے جوش و خروش کی وہ خبریں   جو اُن تک پہنچیں   گی وہ بھی اُن کا حوصلہ بڑھانے میں   مددگار ثابت ہوں   گی۔
 یہ تجسس کہ سائنسی نقطۂ نظر سے سنیتا اور اُن کے ساتھیوں   کوکتنی کامیابی ملی اور اس کامیابی اور حصولیابی سے زمین اور اہل زمین کو کیا فائدہ پہنچے گا، عین فطری ہے مگر ابھی ا س سوال کا وقت نہیں   ہے۔ اِس وقت اُن کی صحت ہر چیز پر مقدم ہے چنانچہ ہم دُعا کرتے ہیں   کہ وہ بخیر و عافیت زمین پر لوَٹ آنے کے بعد صحتمند رہیں   اور جلد اس قابل ہوجائیں   کہ اہل زمین کو اپنے سفر کی تفصیلی روداد سناسکیں  ۔ یقیناً یہ روداد بڑی دلچسپ ہوگی جبکہ اس میں   وہ تلخ حقائق بھی شامل ہوں   گے جن سے سنیتا اور ٹیم کو گزرنا پڑا۔ خلاء میں   چلنا کیا  اور کیسا ہوتا ہے، انسان خود کو کتنا بے وزن یا ہلکا پھلکا  محسوس کرتا ہے، کتنے خطرات نگاہوں   کے سامنے تیرتے ہیں   اور ہزار حوصلے کے باوجود کن اندیشوں  میں   ذہن مبتلا رہتا ہے یہ ساری باتیں    بہت اہم اور ان کے جوابات کافی دلچسپ ہونگےجن کیلئے کچھ اور انتظار کرنا ہوگا، فی الحال سنیتا اور اُن کے رفقائے کار کو زمین پر واپسی کی مبارکباد اور صحت و عافیت کی دُعا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK