کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کا قد بڑھ گیا ہے اور تسلسل کے ساتھ بڑھ رہا ہے مگر کانگریس کا دائرۂ اثر کم ہوتا جارہا ہے۔کانگریس کے زیر اقتدار پہلے بھی زیادہ ریاستیں نہیں تھیں مگر جتنی تھیں اُن میں مزید کمی آگئی ہے۔
EPAPER
Updated: February 14, 2025, 3:44 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کا قد بڑھ گیا ہے اور تسلسل کے ساتھ بڑھ رہا ہے مگر کانگریس کا دائرۂ اثر کم ہوتا جارہا ہے۔کانگریس کے زیر اقتدار پہلے بھی زیادہ ریاستیں نہیں تھیں مگر جتنی تھیں اُن میں مزید کمی آگئی ہے۔
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کا قد بڑھ گیا ہے اور تسلسل کے ساتھ بڑھ رہا ہے مگر کانگریس کا دائرۂ اثر کم ہوتا جارہا ہے۔کانگریس کے زیر اقتدار پہلے بھی زیادہ ریاستیں نہیں تھیں مگر جتنی تھیں اُن میں مزید کمی آگئی ہے۔ اِدھر ایک سال کے اندر اس نے راجستھان، ایم پی، پنجاب، ہریانہ اور مہاراشٹر جیسی ریاستیں گنوائی ہیں جن کے بارے میں سمجھا جارہا تھا کہ ان میں کانگریس یا تو فاتح رہے گی یا سخت ٹکر دے گی۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف راہل گاندھی ہیں جن کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد ہونے والے ایک سروے میں ، جس کی رپورٹ اخبارات میں شائع ہوچکی ہے، بتایا گیا تھا کہ راہل اور مودی کی مقبولیت میں جو فاصلہ تھا وہ کم ہوچکا ہے حتیٰ کہ یوپی میں راہل کی مقبولیت مودی سے زیادہ ہوگئی ہے۔ قارئین کو ’’موڈ آف دی نیشن‘‘ سروے یاد ہوگا جس میں اعدادوشمار موجود تھے کہ راہل کی مقبولیت ۲۲؍ فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ وزیر اعظم مودی کی مقبولیت اب تک کی کم ترین سطح پر ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں یہ پہلا موقع تھا جب مودی کی پاپولیریٹی۵۰؍ فیصد سے بھی کم ریکارڈ کی گئی۔ کانگریس کا ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا الیکشن ہارنا اور راہل کا مسلسل مقبول ہونا آخر کس بات کا غماز ہے؟ ہمارے خیال میں اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کانگریس بحیثیت پارٹی، اپنے لیڈر کی مقبولیت بھنانے میں ناکام ہے۔
اب سے پہلے، الگ الگ ریاستوں کے اپنے کانگریسی لیڈر ہوا کرتے تھے جیسے بھوپیش بگھیل، کمل ناتھ یا اشوک گہلوت، جو ہر طرح کی تشفی دیتے تھے اور خود بھی پُریقین ہوتے اور پارٹی کو بھی یقین دلاتے تھے کہ اُن کی سربراہی میں ریاستی انتخابات جیتنا کچھ مشکل نہیں ہے مگر اُن کے ہوتے ہوئے کانگریس ہارجاتی۔ اب جبکہ ریاست کی باگ ڈور کانگریس کے ہاتھوں میں ہے ہی نہیں تو ایسے لیڈروں کی بادشاہت بھی ختم ہوچکی ہے اس کے باوجود پارٹی کی انتخابی کامیابیوں کا سلسلہ ہنوز شروع نہیں ہوا ہے۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ پارٹی نے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کی شاندار نظیر پیش کی اور اپنی سیٹوں کو دوگنا کرلیا۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ کانگریس نے امیٹھی میں عظیم الشان فتح حاصل کی، رائے بریلی میں بھی تاریخ رقم کی اور پھر ضمنی انتخابات میں پرینکا گاندھی نے وائناڈ سے پہلی انتخابی کامیابی ریکارڈ ووٹوں سے حاصل کی۔ کیا یہ صورت حال وہی ہے جسے ترقی ٔ معکوس کہا جاتا ہے یعنی ایک طرف آگے بڑھنا اور دوسری طرف پیچھے آنا؟
کانگریس کیلئے دہلی تازہ زخم کی طرح ہے مگر حیرت ہے کہ اس کے بعض لیڈران اپنی پارٹی کے بے نام و نشاں ہونے کی حقیقت کا ماتم نہیں کررہے ہیں بلکہ عام آدمی پارٹی کے ہارنے کی خوشی منا رہے ہیں ۔ یہ طرز عمل عوام کو کیونکر گوارا ہوگا جبکہ ہم ہی نہیں بہت سے لوگ اس خیال کے حامل ہیں کہ کانگریس کو کم از کم ۸؍ تا ۱۰؍ سیٹیں حاصل کرنی چاہئے تھیں ۔ راہل پارٹی کے صدر نہیں ہیں لیکن پارٹی صدر کے بہت قریب ہیں اور جہاں تک ہم جانتے ہیں ملکارجن کھرگے اور راہل میں غیر معمولی ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں ان دو شخصیات کیلئے انتخابی حکمت عملی تیار کرنا، اُس پر پوری پارٹی کو متفق کرنا اور اپنے کارکنان کو ایک پروگرام دینا کہ اُنہیں کیا کرنا ہے، کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ راہل کی مقبولیت یقیناً بہت قیمتی ہے اور بڑی محنت سے حاصل کی گئی ہے مگر اتنی ہی قدروقیمت انتخابی فتوحات کی ہے جن کے بغیر کوئی مقبولیت یا شہرت ناپائیدار ہی رہے گی۔