• Fri, 31 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ٹرمپ اور پلوٹوکریسی

Updated: January 29, 2025, 1:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

آپ نے بیوروکریسی سنا ہے۔ اِس کا معنی ہے افسر شاہی۔ اسے انتظامیہ بھی کہا جاتا ہے۔ مگر پلوٹوکریسی؟ اس اصطلاح سے کم لوگ واقف ہونگے۔ آکسفورڈ انگلش اُردو ڈکشنری (۲۰۰۳ء) میں اس کا معنی امراء کی حکومت درج ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 آپ نے بیوروکریسی سنا ہے۔ اِس کا معنی ہے افسر شاہی۔ اسے انتظامیہ بھی کہا جاتا ہے۔ مگر پلوٹوکریسی؟ اس اصطلاح سے کم لوگ واقف ہونگے۔ آکسفورڈ انگلش اُردو ڈکشنری (۲۰۰۳ء) میں  اس کا معنی امراء کی حکومت درج ہے۔ یہ ایسے طرزِ حکومت کو کہتے ہیں  جس پر امیروں  کا بالواسطہ قبضہ ہو یا جس کے زیر سایہ امیروں  کا اثرو رسوخ بڑھے، وہ زیادہ امیر ہوتے رہیں ، اُنہیں  سرکاری تحفظات حاصل ہوں  اور اُن کے مفادات ترجیحی تکمیل کے حقدار قرار پائیں ۔ 
 پلوٹوکریسی اور ڈیموکریسی میں  زمین آسمان کا فرق ہے مگر اسے ڈیموکریسی کی بدقسمتی کہئے کہ پلوٹوکریسی، ڈیموکریسی ہی کی سرپرستی میں  پرورش پاتی ہے اگر اُس میں  یعنی نظام جمہوریت میں  خامیاں  ہوں  اور جمہوریت جیسی جمہوریت نہ رہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں  ایشیاء ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ فیلو کشور محبوبانی نے اس مو ضوع سے بحث کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’فعال جمہوریتوں  میں  ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ ناگزیر ہوتا ہے یعنی تمام شہریوں  کو (اور الیکشن کے دور میں  تمام سیاسی پارٹیوں  کو) یکساں  مواقع ملیں ۔‘‘ 
 اگر عدل و انصاف کا صحتمند اور مضبوط نظام جمہوریت کی اساس ہو تو یہ نظام، پلوٹوکریسی کے خلاف ازخود سب سے بڑا مزاحم بن جاتا ہے مگر ایسا نہ ہو تو اس کے برعکس ہوتا ہے اور پلوٹوکریسی پروان چڑھنے لگتی ہے۔ کشور محبوبانی نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ میں  اگر آپ یہ سمجھتے ہیں  کہ غر یب اور محنت کش طبقے کو اُتنے ہی مواقع حاصل ہیں  جتنے کہ وہاں  کے امیروں  کو، تو آپ غلطی پر ہیں ۔ اگر کوئی غریب چاہے کہ اُس کا ستارہ آسمان کی بلندی پر ہو تو اُسے غیر معمولی محنت اور ذہانت کے ذریعہ کئی پہاڑ سر کرنے ہونگے تب کہیں  جاکر اُس کا مقدر چمک سکتا ہے، مگر اس سے کم محنت کے ذریعہ امیر چاہے کہ اُس کا خزانہ وسیع ہوجائے تو اُس کی خواہش پوری ہونے میں  وقت نہیں  لگے گا۔یہ کیفیت ہمارے ملک کی بھی ہے۔ یہاں  بھی امیروں  کو پھلنے پھولنے اور آگے بڑھنے کے بے شمار مواقع ہیں  مگر غریب اور حاشیائی لوگوں  کیلئے مٹھی بھر مواقع ہوتے ہیں ، وہ بھی اکثر بھاپ بن کر اُڑ جاتے ہیں  اوران کے بچے پڑھ لکھ کر بھی محنت مزدوری یا ملتا جلتا شغل اپنالیتے ہیں ۔ 
 ہم نے آج یہ بحث اس لئے چھیڑی کہ کئی ایسے ماہرین جن کے افکار و نظریات سے انصاف پسندی جھلکتی ہے، اس خیال کے حامل نظر آرہے ہیں  کہ ٹرمپ کا ’’میک امریکہ گریٹ اگین‘‘ (ایم اے جی اے/ میگا)کا نعرہ کم خوش قسمت امریکیوں  کو جھانسہ دینے کے مترادف ہے تاکہ وہ اس گمان میں  رہیں  کہ اُن کا صدر امریکیوں  کی خوش حالی کیلئے ’’میگا‘‘ پر سختی سے عمل کرنا چاہتا ہے مگر وہ (صدر) امریکی وسائل کا خزانہ اُن ارب پتیوں  کیلئے کھولنے کے درپے ہے جو پلوٹوکریسی کا حصہ ہیں ۔ انصاف پسند مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں  سیاستداں  اس لئے کامیاب نہیں  ہوتے کہ وہ عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں  بلکہ اولین مرحلے میں ، دولتمند اور اثرورسوخ والے شہری کی حیثیت سے اُن کی شناخت کی جاتی ہے اور پھر اُنہیں  رائے دہندگان کے سامنے (اُمیدوار کی حیثیت سے) لایا جاتا ہے۔ ایسا سیاستداں  عوام کے ووٹوں  سے منتخب ہونے کے بعد کس کی نمائندگی کریگا، عوام کی یا اپنے جیسے دولتمندوں  کی؟ویسے ٹرمپ محتاجِ تعارف نہیں  ہیں ،  وہ خود بڑی کمپنیوں  کے مالک ہیں  اور ارب پتیوں  میں  شمار ہوتے ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK