مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر اتنا کچھ لکھا جارہا ہے کہ ایسا لگتا ہے ہر چیز پڑھنا انسان کے بس میں نہیں ہے، اسے کوئی پڑھ سکتا ہے تو وہ کوئی اے آئی ٹو‘ل ہی ہو سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت پر بحث و مباحثہ بھی کافی ہورہا ہے۔ حکومتیں زر کثیر خرچ کرنے کیلئے تیار ہیں ۔
مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر اتنا کچھ لکھا جارہا ہے کہ ایسا لگتا ہے ہر چیز پڑھنا انسان کے بس میں نہیں ہے، اسے کوئی پڑھ سکتا ہے تو وہ کوئی اے آئی ٹو‘ل ہی ہو سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت پر بحث و مباحثہ بھی کافی ہورہا ہے۔ حکومتیں زر کثیر خرچ کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ وہ کسی دوسری مد میں کم خرچ کریں مگر اے آئی میں زیادہ سے زیادہ صرف کرنے کی خواہش ہر جگہ یکساں ہے۔ دُنیا کے ہر ملک کو یہ فکر لاحق ہے کہ اے آئی کی دوڑ میں وہ پیچھے نہ رہ جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سائنس اور تکنالوجی کی اب تک کی تاریخ میں کوئی پیش رفت ایسی نہیں رہی ہوگی جس پر اتنا جوش و خروش پایا گیا ہو، اتنا خرچ کیا گیاہو اور مزید خرچ کرنے کیلئے حکومتیں اور ادارے اپنے خزانوں کا منہ کھول کر بیٹھے ہوں ۔ یہ امتیاز صرف اے آئی کو حاصل ہے۔
اے آئی کے فوائد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھناگوارا کیا جاسکتا ہے کہ یہ دور ہی منافع خوری اور سرمایہ اندوزی کا ہے مگر اس کے نقصانات کو نظرانداز کرنا بُرا ہے۔ اندیشہ ہائے دور دراز کے حاملین میں جو حکومتیں شامل ہیں وہ قابل ستائش ہیں ۔ ورنہ سب آنکھوں پر پٹی باندھ کر دوڑنا شروع کردیتے اور نقصانات کے خلاف متنبہ ہونے سے انکار کرتے تو زیادہ پریشان کن ہوتا۔ اس ضمن میں گزشتہ ہفتے پیرس میں منعقدہ چوٹی کانفرنس اہمیت کی حامل ہے۔
کانفرنس میں ہندوستان سمیت ۱۰۰؍ سے زائد ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی جنہوں نے اے آئی کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا۔ کانفرنس کے بعد ایک اعلامیہ پر دستخط کئے گئے جس میں کہا گیا کہ ’’اے آئی شفافیت کا مظہر ہو، اس کی پیش رفت میں سب کی شمولیت ہو، اس میں کچھ بھی مخفی نہ رکھا جائے، یہ اخلاقی حدود و قیود میں رہے، محفوظ ہو اور قابل اعتماد ہو۔‘‘ ہرچند کہ یہ اے آئی کا ابتدائی دور ہے مگر اس میں یہ طے کرلیا جانا بہت ضروری ہے کہ آئندہ تحقیقات اوران کی بنیاد پر اے آئی کے نت نئے مظاہر کس حد تک جاسکتے ہیں ، کہاں ان کا قدم رکھنا ممنوع ہوگا اور اگر کچھ ممالک سبقت حاصل کرنے یا بالادستی قائم کرنے کے مقصد سے غیر ذمہ داری سے آگے بڑھیں گے تو اُنہیں کس طرح روکا جائے گا۔ اس اعلامیہ کو امریکہ اور برطانیہ نے اہمیت نہیں دی اور اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ عذر یہ پیش کیا گیا کہ ابتدائی مراحل میں آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں ، روک ٹوک ٹھیک نہیں ۔
کہنےکی ضرورت نہیں کہ دُنیا کی بڑی طاقتیں اپنے مفادات کو اس حد تک عزیز رکھتی ہیں کہ کوئی معرکہ انسانیت کی قیمت پر سر کرنا ہو تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کریں گی۔ یہ افسوسناک ہے۔ دُنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جو بظاہر انسانیت کے بڑے ہمدرد ہیں مگر در پردہ وہ سب کچھ کرتے ہیں جو انسانیت کیلئے فیض رساں نہیں ہوتا۔ یہ فہرست طویل ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں امریکہ اور برطانیہ بھی شامل ہیں جنہوں نے ایک طرف اعلامیہ پر دستخط نہیں کئے مگر دوسری طرف یہ باور کرایا کہ اے آئی کو محفوظ اور انسانیت کیلئے فائدہ مند بنانا اُن کی اولین ترجیح ہے۔ امریکہ میں ٹیکنالوجی انڈسٹری کے بڑے ناموں کو وہائٹ ہاؤس مدعو کیا گیا اور اُنہیں اے آئی کو محفوظ بنانے کی ترغیب دی گئی۔ برطانیہ میں اے آئی کے مارکیٹ قوانین پرنظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا۔ ان میٹنگوں میں سندر پچائی، ستیہ نڈیلا اور سیم آلٹ مین جیسی شخصیتیں موجود تھیں ۔ اعلامیہ پر دستخط سے انکار بھی اور فکر مندی کا اظہار بھی، ہم اسے دوہرا معیار کہتے ہیں مگر یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ اے آئی اسے کیا کہتا ہے۔