• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

امریکی یہودیوں کا دل فلسطینیوں کیلئے دھڑکتا ہے؟

Updated: June 19, 2024, 1:16 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

امریکی یونیورسٹیوں کے احاطوں میں بڑے پیمانے پر ہوئے مظاہروں میں یہودی طلبہ اور اساتذہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔یہ اپنے آپ میں خوشگوار نئی تبدیلی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

جب ظالم کے ظلم کے خلاف خود اس کی اپنی قوم کے لوگ احتجاج کرنے لگیں  تو دل میں  یہ حوصلہ افزا احساس جاگتا ہے کہ دنیا میں  انسانیت اور انصاف ابھی باقی ہے۔ ماضی میں  جب اسرائیل اہل  فلسطین پر بموں  کی بارش کرتا تھا تومسلم ممالک میں  مظاہرے ہوا کرتے تھے۔ لیکن ۷؍ اکتوبر کے حماس کے حملوں  کے بعد جب بنجامن نیتن یاہو کی وحشی اسرائیل ڈیفنس فورس آئی ڈی ایف غزہ میں  قتل عام کرنے لگی تو دنیا بھر میں  لوگ احتجاجاً سڑکوں  پر اتر آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس امریکہ کی حکومت ۷؍ اکتوبرکے بعد سے مکمل طور پر اسرائیل کی اندھی حمایت میں  کھڑی ہوگئی تھی، اسی امریکہ میں  غزہ میں  اسرائیلی ظلم کی مخالفت اور جنگ بندی کے مطالبے پر سب سے زیادہ احتجاج منعقد کئے گئے۔ امریکہ کے ان  احتجاجی مظاہروں  کا اہم پہلو یہ ہے کہ ان میں  یہودی باشندوں  نے بھی شرکت کی۔ فلسطینیوں  کے قتل عام پر ان امریکی یہودیوں  کا دل خون کے آنسو رورہا ہے۔ یہودی عالم الیسا وائز کی مانیں  تو فلسطینی باشندوں  کے علاوہ امریکہ میں  کسی اور قوم کے لوگوں  نے غزہ کی نسل کشی کی اتنی شدید مخالفت نہیں  کی جتنی یہودیوں  نے کی ہے۔ الیسا  وائز امریکی یہودیوں  کے مذہبی علماء کی اس تنظیم کے بانی ہیں  جو فلسطینیوں  کے ساتھ مسلسل اظہار یکجہتی کر رہی ہے۔ غزہ میں  نسل کشی رکوانے کیلئے یہودی مظاہرین نے پچھلے سات ماہ میں  متعدد بار ریلوے اسٹیشنوں ، شاہراہوں  اور سرکاری عمارتوں  پر دھاوا بولا،  واشنگٹن کے کیپٹل ہل پر بھی یہودیوں  کے احتجاجی نعرے گونجے اور نیویارک کے گرینڈ سنٹرل اسٹیشن پر بھی۔ انہوں  نے اسرائیلی قونصل خانوں  کے باہر بھی دھرنے دیئے اور جامعات کے لانوں  پر بھی۔ امریکی یہودیوں  کی اکثریت کا یہ دیرینہ موقف رہا ہے کہ دنیا بھر کے یہودیوں  کی سلامتی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت اور فوج کی غیر مشروط حمایت کی جائے تاہم غزہ پر جاری بمباری کے بعد اب امریکی یہودیوں  کا ایک طبقہ اس موقف پر سوال اٹھارہا ہے۔آج بھی امریکی یہودیوں  کی اکثریت اسرائیل کی حمایتی ضرورہے لیکن ایک طبقہ اب اسرائیل کی فوجی کارروائیوں  پر تنقید بھی کررہا ہے اور بائیڈن حکومت سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ اسرائیل کی اقتصادی اور فوجی امداد پر فوراً روک لگائے۔ غزہ میں  ہوئی ہزاروں  بچوں  کی موت  نے دردمند یہودیوں  کو اسرائیل سے بدگمان کردیا ہے۔ امریکی یہودی خصوصاً نوجوان ترقی پسند اور کشادہ ذہن ہیں  جو ہرلبرل کاز کی بڑھ چڑھ کر حمایت کرتے ہیں ۔ یہودی النسل امریکی اسکالر پیٹر بینارٹ کے مطابق ایک نظریاتی کشمکش نے ایک دہائی سے امریکی یہودیوں  کی زندگیوں  میں  جو ہلچل مچارکھی تھی وہ ۷؍ اکتوبر کے بعد زلزلہ میں  تبدیل ہوگئی ہے۔ امریکہ کے یہودی نوجوان ترقی پسندی اور صہیونیت نوازی کے درمیان بٹ گئے ہیں ۔ غزہ تنازع پر احتجاج کرنے میں  بھی یہودیوں  کی نوجوان نسل ہی آگے آگے ہے۔ خصوصاً  ’’جیوش فائس فار پیس‘‘ اور ’’اِف ناٹ ناؤ‘‘جیسی تنظیموں  کے فعال اراکین نے امریکہ کے طول وعرض میں  احتجاجی مظاہرے منعقد کرنے میں  نمایاں  کردار ادا کیا ہے۔ اپریل میں  امریکی یونیورسٹیوں  کے کیمپسوں  میں  بڑے پیمانے پر جومظاہرے ہوئے ان میں  بھی یہودی طلبہ اور اساتذہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ نوجوان یہودیوں  کا ماننا ہے کہ صہیونیت امن اور انسانیت کی دشمن ہے اور اسی لئے یہ لوگ صہیونیت کے کٹر مخالف ہیں ۔ 
 مقبول یہودی دانشور نومی کلین نے بروکلین میں  حالیہ تقریر میں  صہیونیوں  کے ان تمام دلائل کی دھجیاں  بکھیر کررکھ دیں  جن کی بنیاد پر یہ لوگ فلسطینی سرزمین پر اپنا حق جما تے ہیں ۔ نومی کلین نے دعویٰ کیا کہ بہت سے یہودی جس جھوٹے دیوتا کی پرستش کررہے ہیں  اس کا نام صہیونیت ہے۔ انہوں  نے صہیونیوں  کے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا کہ فلسطین ہی وہ ارض موعودہ ’’پرامسڈ لینڈ‘‘  ہے جہاں  سے انہیں  صدیوں  قبل نکالاگیا تھا۔ نسل در نسل چلے آرہے عقائد کے بت کو اس طرح پاش پاش کردینے کیلئے بڑی جرأت کی ضرورت ہے خاص کر اس امریکہ میں  جہاں  کے ایوان نمائندگان میں  صہیونیت کی مخالفت کو  یہودیوں  کی مخالفت (anti-semitism)   مانا جاتا ہے اور جہا ں ایسی قرارداد پاس کی گئی ہے۔ اگر صہیونیت کی مخالفت یہود مخالفت ہے تو آج بے شمار امریکی یہودیوں  پر بھی یہود مخالف ہونے کا الزام لگ سکتا ہے۔ ’’جیروشلم سینٹر فار پبلک افیئرس‘‘ نے پچھلے ماہ ایک سروے کروایا جس سے پتہ چلا کہ امریکی یہودیوں  کی ایک تہائی تعداد غزہ میں  اسرائیلی فوجی کارروائی کو نسل کشی قرار دیتی ہے۔ سروے کے مطابق ۶۰؍ فیصد امریکی یہودی فلسطینیوں  کے علاحدہ ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں ۔ ایک امریکی یہودی تجزیہ کار راب ایش مین  نے تجویز رکھی ہے کہ ناروے، اسپین اور آئر لینڈ کی طرح امریکی یہودی بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیں ۔  ان کے اس اقدام سے صدر بائیڈن کو اسرائیل۔فلسطین قضیہ کا سفارتی حل تلاش کرنے اور جنگ بند کروانے میں  مدد ملے گی۔ صہیونیت کے امریکی یہودی ناقدین کی تاریخ پر مارجری فیلڈ کی گہری نظر ہے۔ وہ فرماتی ہیں  کہ پچھلے پچیس برسوں  میں  امریکی یہودیوں  کی نئی نسل میں  ایک نئی فکر پروان چڑھی ہے۔ امریکی یہودیوں  کی یہ نئی نسل صہیونیت اور اسرائیل فوج کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے سے نہیں  ڈرتی  حالانکہ اسے علم ہے کہ اسے غدار، یہود  دشمن، گھر کا بھیدی اور " "self-hating jews جیسے طعنے دیئے جائینگے۔ بہت سے یہودی مظاہرین نے پولیس کی زیادتیاں  بھی سہیں  اور بہت سوں  کو ملازمتوں  سے بھی نکالا گیا۔ چند ہفتے قبل امریکی وزارت داخلہ کی ایک اہلکار للی گرینبرگ کال نے اسرائیلی مظالم کی حمایت کرنے پر احتجاج کیا اور بائیڈن انتظامیہ سے استعفیٰ دے دیا۔ للی خود یہودی ہیں  لیکن تسلیم کرتی ہیں  کہ غزہ میں  فلسطینی شہریوں  کی نسل کشی ہورہی ہے اور صدر بائیڈن اس کی سرپرستی کررہے ہیں ۔ للی کے مطابق ان کا’’ ضمیر گوارانہیں  کرتا کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کی نمائندہ بنی رہیں ۔‘‘ چک شومر نیو یارک کے ڈیموکریٹ سینیٹر اور امریکی انتظامیہ میں  اعلیٰ ترین یہودی عہدے دار ہیں ۔پھر بھی وہ نیتن یاہو کے جنگی عزائم کے پرزور مخالف ہیں ۔شومر اس بات کی وکالت کررہے ہیں  کہ نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹا کر  نئے سرے سے الیکشن کروائے جائیں ۔ شومر اور کئی امریکی اہلکاروں  کا خیال ہے کہ بے شمار فلسطینی بچوں  کی موت  نے دنیا کے ایک بڑے حصے کو اسرائیل سے متنفر کردیا ہے۔ شومر کو ڈ ر ہے کہ اسرائیل سفارتی تنہائی کا  شکار نہ ہوجائے۔ انہوں  نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ اسرائیل اگر سفارتی طور پر دنیا میں  تنہا ہوا تو اس کا وجود  خطرہ میں  پڑ جائے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK