حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رح) کی درگاہ کے خلاف چھیڑا گیا تنازع اُسی شر انگیز رجحان کا عکاس ہے جس کے تحت پہلے دعویٰ کیا جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بے بنیاد ہو، پھر عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے، سروے کی اجازت طلب کی جاتی ہے اور اِس طرح مسلمانوں کے مذہبی اور تہذیبی مقامات کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رح) کی درگاہ کے خلاف چھیڑا گیا تنازع اُسی شر انگیز رجحان کا عکاس ہے جس کے تحت پہلے دعویٰ کیا جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بے بنیاد ہو، پھر عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے، سروے کی اجازت طلب کی جاتی ہے اور اِس طرح مسلمانوں کے مذہبی اور تہذیبی مقامات کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اُتر کاشی کی مسجد، ہبلی کی عید گاہ، گیان واپی مسجد، سنبھل کی شاہی جامع مسجد یا تاج محل کے خلا ف پیش کیا گیا کوئی بھی دعویٰ ہو، بدنیتی صاف جھلکتی ہے۔ نئی نسل بھلے ہی اس کی تفصیل نہ جانتی ہو مگر پختہ عمر کے لوگ جانتے ہیں کہ ایودھیا کی بابری مسجد کے خلاف بھی اسی طرح کا طومار باندھ کر نفرت کی سیاست کو نقطۂ عروج پر پہنچایا گیا تھا جس کے نتیجہ میں بابری مسجد شہید کردی گئی حالانکہ مخالفین کا دعویٰ بے شمار عدالتی سماعتوں کے باوجود عدالت میں نہیں ٹھہر سکا ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ سپریم کورٹ کو حقائق کی روشنی میں نہیں آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنانا پڑا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جو کچھ بھی کیا جارہا ہے، مخصوص ذہنیت اور ایجنڈا کے تحت کیا جارہا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی مذہب، ایک ہی فرقہ، ایک ہی رنگ، ایک ہی روپ اور ایک ہی شعار کا غلبہ ہو۔ اس کیلئے کوشش کی جارہی ہے کہ نہ تو جمہوریت کی بات ہو نہ مساوی حقوق کی، نہ آئین کو پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہو نہ ہی تکثیریت کو موضوع بنایا جائے۔ اجمیر کی درگاہ کی تاریخ نہ صرف ۸؍ سو سال پُرانی ہے بلکہ یہ گنگا جمنی تہذیب کا ناقابل فراموش باب ہے۔ یہاں ہر فرقے اور طبقے کے عقیدتمند آتے ہیں اور یہ سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے۔ ۸؍ سو سال میں نہ تو کسی نے ایسا دعویٰ کیا نہ ہی عدالت سے رجوع کی جرأت کی۔ وہ مرکز ِ عقیدت جسے مرجع خلائق ہونے کا اعزاز حاصل ہو، ملک کے وزیر اعظم، دیگر وزراء اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان جس سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوں اور ہر سال چادر نذر کرتے ہوں ، جو بیرونی ملکوں کے سیاحوں کیلئے بھی اہم ہو اور بیرونی ملکوں کے ارباب اقتدار بھی چادر پیش کرتے ہوں ، اُس کے خلاف یہ دعویٰ سراسر لغو، مہمل، بے بنیاد اور گمراہ کن ہے کہ یہ درگاہ یا مزار نہیں مندر ہے اور اس میں مندر کے باقیات پائے جاتے ہیں ۔ اجمیر کی سول عدالت میں جس شخص نے عرضی داخل کی ہے ، وہ نہیں جانتا کہ اُس نے ملک کے کتنے بڑے مذہبی و روحانی، سماجی اور تہذیبی ورثہ کے خلاف ایک غیر مستند کتاب کے اقتباسات سے حوصلہ پاکر عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اچھا ہوتا اگر عدالت نے متعلقہ عرضی کو خارج ہی کردیا ہوتا کہ غیر ضروری تنازعات سے نمٹنے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہوسکتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب سپریم کورٹ کے اُس رُخ سے، جو گزشتہ روز سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے تعلق سے اپنایا گیا ہے نئی اُمید پیدا ہوئی ہے ورنہ سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ نے تو تنازعات کا راستہ کھول کر ۱۹۹۱ء کے اُس قانون کو بھی بے اثر بنانے کی کوشش کی جسے ’’عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون‘‘ کہا جاتا ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خواجہ ؒ صاحب کی درگاہ کے خلاف تنازع کھڑا کرکے ملک کی ۸۰۰؍ سال کی تاریخ، خواجہؒ اجمیری کے پیغام ِاتحاد و فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندوستانیوں میں روحانیت کی راہ پر لانے کی سعیٔ بلیغ پر سوال اٹھایا جائیگا۔ یاد رہنا چاہئے کہ موجودہ مادّہ پرستانہ دَور میں انسانیت کو سب سے زیادہ ضرورت روحانیت کی ہے، روحانی مراکز کو ہدف بنانا انسانیت کو ضرر پہنچانے کی کوشش ہے۔