۱۰؍ جنوری کے شمارہ میں ہم نےلکھا تھا کہ ٹرمپ کی تاجپوشی میں ۱۰؍ دن باقی ہیں اور وہ پانچ بڑی دھمکیاں دے چکے ہیں ۔اُس روز ایک اور دھمکی پر گفتگو نہیں ہوسکی تھی۔ اِس دھمکی کا تعلق اُن ملکوں سے ہے جو ’’بر ِ کس‘‘ کے رُکن ہیں ۔
EPAPER
Updated: January 14, 2025, 1:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
۱۰؍ جنوری کے شمارہ میں ہم نےلکھا تھا کہ ٹرمپ کی تاجپوشی میں ۱۰؍ دن باقی ہیں اور وہ پانچ بڑی دھمکیاں دے چکے ہیں ۔اُس روز ایک اور دھمکی پر گفتگو نہیں ہوسکی تھی۔ اِس دھمکی کا تعلق اُن ملکوں سے ہے جو ’’بر ِ کس‘‘ کے رُکن ہیں ۔
۱۰؍ جنوری کے شمارہ میں ہم نےلکھا تھا کہ ٹرمپ کی تاجپوشی میں ۱۰؍ دن باقی ہیں اور وہ پانچ بڑی دھمکیاں دے چکے ہیں ۔اُس روز ایک اور دھمکی پر گفتگو نہیں ہوسکی تھی۔ اِس دھمکی کا تعلق اُن ملکوں سے ہے جو ’’بر ِ کس‘‘ کے رُکن ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ ’’بر ِ کس‘‘ میں برازیل، روس، چین، ہندوستان اور جنوبی افریقہ بنیادی رُکن ہیں ، بعد میں مزید پانچ ملکوں (مصر، انڈونیشیا، ایران، ایتھوپیا اور یو اے ای) کو اتحاد کا حصہ بنایا گیا۔ یہ عالمی سطح کا واحد طاقتور اتحاد ہے جس میں امریکہ نہیں ہے۔ ٹرمپ نے اس اتحاد کو یہ کہتے ہوئے دھمکایا ہے کہ اگر اُنہوں نے ڈالر کے علاوہ کسی اَور کرنسی میں لین دین کی بناء ڈالی تو وہ ’’ٹرمپیائی عتاب‘‘ سے نہیں بچ سکیں گے اور اُنہیں بخشا نہیں جائیگا۔ دھمکی کے الفاظ الگ ہیں مگر مفہوم یہی ہے۔
ٹرمپ نے کیا سوچ کر اِس طرح دھمکایا یہ کوئی نہیں بتا سکتا کیونکہ وہ سیماب طبع یا سیماب صفت یا ’’بے چین آتما‘‘ ہیں اور اس کیفیت میں اُن کی ہنگامہ آرائی سے پوری دُنیا واقف ہے۔ ممکن ہے کہ اب اُن کی بے چینی بڑھ گئی ہو۔ اس کی وجہ سامنے ہے۔ وہ ٹیریف پر غیر معمولی اصرار کرتے ہوئے مختلف ملکوں کو متنبہ کررہے ہیں کہ اگر وہ امریکی شرائط کو ملحوظ رکھے بغیر تجارتی و معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھیں گے تو اُنہیں خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔ ا س کی وجہ سے الگ الگ ملکوں پر ٹیریف کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور ایکسپورٹ اِمپورٹ کا توازن بدل یا بگڑ سکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نئی امریکی شرائط سے بددل ہوکر متاثرہ ممالک ڈالر چھوڑ کر کسی اور کرنسی کو لین دین کا ذریعہ بنائیں ۔ماضی میں یہ موضوع زیر بحث آبھی چکا ہے۔ ٹرمپ کو یہی فکر لاحق ہوگی کہ کہیں یہ ممالک ایک ہوکر ڈالر کے خلاف مہم نہ چھیڑ دیں ۔ اس سے امریکی معیشت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ڈالر کو حاصل ریزرو کرنسی کی حیثیت باقی نہ رہے۔
یاد رہے کہ ریزرو کرنسی کے مرتبہ پر ایسی کرنسی فائز رہتی ہے جس کے ذریعہ عالمی تجارتی لین دین جاری رہتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو الگ الگ ملکوں کی کرنسی کے ذریعہ لین دین میں بڑی دشواری آئے۔ امریکی ڈالر کو ریزرو کرنسی تسلیم کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی مانگ عالمی سطح پر برقرار رہتی ہے، اس کا دبدبہ بڑھتا ہے اور اس کی قدر مستحکم رہتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکی ڈالر ہی ریزرو کرنسی کے طور پر استعمال میں ہے، یہ الگ بات کہ بعض ممالک باہمی لین دین کیلئے متفقہ طور پر کسی اور کرنسی کا بھی استعمال کرلیتے ہیں مگر یہ غالب رجحان نہیں ہے۔ ریزرو کرنسی کے طور پر یورو، چینی یوآن، جاپانی ین، برطانوی پاؤنڈ، کنیڈین اور آسٹریلین ڈالر اور سوئس فرینک بھی چلن میں ہیں مگر ریزرو کرنسی کے طور پر غالب رجحان امریکی ڈالر ہی کو تسلیم کرنے کا ہے۔دُنیا بھر کے ملکوں کے پاس موجود غیر ملکی زر مبادلہ کا ۵۸؍ فیصد امریکی ڈالر کی شکل میں ہے۔ حالیہ برسوں میں لین دین کیلئے چینی کرنسی کی قبولیت میں اضافہ ہوا مگر جس طرح کا ردعمل ٹرمپ کی طرف سے آیا ہے، اُن کے پیش رو صدور میں کسی کی طرف سے نہیں آیا تھا۔
اس پس منظر میں کہا جاسکتا ہےکہ ’’ڈالر مخالف رجحان‘‘ کے حامل ملکوں کو متنبہ کرنا ایک قسم کی پیش بندی ہے اور ٹرمپ کا بنیادی مقصد ڈالر کو مزید طاقت دینا اور امریکہ کے آگے کسی بھی ملک کے چراغ کو جلنے نہ دینا ہے۔ اُن کا روئے سخن بھلے ہی بر ِکس میں شامل ملکوں کی جانب ہو مگر اُن کی دھمکی غیر بر ِکس ملکوں کیلئے بھی ہے۔