• Fri, 08 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’اورہم نے آپؐ کا ذکر بلند کردیا ہے!‘‘

Updated: September 16, 2024, 2:01 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

آج کا دن اُس عظیم الشان اور عظیم المرتبت شخصیت سے موسوم ہے جس کیلئے کائنات برپا کی گئی، جسے رحمۃ اللعالمین قرار دیا گیا اور جسے ’’اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا ہے‘‘کی خوش خبری سنائی گئی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 آج کا دن اُس عظیم الشان اور عظیم المرتبت شخصیت سے موسوم ہے جس کیلئے کائنات برپا کی گئی، جسے رحمۃ اللعالمین قرار دیا گیا اور جسے ’’اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا ہے‘‘کی خوش خبری سنائی گئی۔ یہ خوش خبری کس نے سنائی؟ اُس ذات وحدہ‘ لا شریک نے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس خوش خبری کے مظاہر پوری دُنیا میں دیکھے گئے، دیکھے جارہے ہیں اور دیکھے جاتے رہیںگے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ دُنیا میں ہمہ وقت اذان گونجتی رہتی ہے، ہمہ وقت تلاوت کلام پاک جاری رہتی ہے، ہمہ وقت نمازوں کی ادائیگی کا سلسلہ دراز رہتا ہے، اِس طرح ہمہ وقت آپ کا ذکر بلند رہتا ہے اور رب العالمین کا وعدہ پورا ہوتا رہتا ہے جو پورا ہونے کیلئے ہی ہے۔اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ کوئی فرد، کچھ لوگ، کوئی گروہ، کوئی بستی، کوئی علاقہ، یا آبادی کا کوئی طبقہ آپؐ کا ذکر بلند کرنے میں شریک نہ ہو تب بھی ذکر بلند ہوتا رہے گا بلکہ پوری دُنیا،خدانخواستہ، آپؐ کا ذکر بلند کرنے میں غفلت کی مرتکب ہوجائے تب بھی خدائے واحد کا وعدہ پورا ہوتا رہے گا۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس ذکر کو بلند کرنے میں شریک ہونےوالے لوگ کسی اور پر نہیں، اپنے آپ پر احسان کرتے ہیں، اپنی قسمت سنوارتے ہیں اور اپنابھلا کرتے ہیں۔یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو کسی کے سمجھانے پر سمجھ میں آئے۔ مگر اس کا سمجھنا کافی نہیں، اس پر تدبر بھی ضروری ہے۔ غور کیجئے اس آیت پر جس کے ذریعہ یہ خوش خبری سنائی گئی اور یہ وعدہ کیا گیا کہ ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا گیا ہے، اُس میں لفظ ’’ذکر‘‘ وارد ہوا ہے ’’نام‘‘ وارد نہیں ہوا۔ یہ نہیں کہا گیا کہ آپ کا نام پوری دُنیا اور کائنات میں گونجتا رہے گا بلکہ ذکر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذکر وسیع المعنی لفظ ہے چنانچہ اس کے معنیٰ میں یہ بھی شامل ہے کہ پوری دُنیا میں آپؐ کی صفات عالیہ بیان کی جائینگی، آپؐ پر درود اور سلام بھیجا جائیگا، آپؐ کی سیرت کا چرچا ہوگا اور ذکر سننے والا ہر شخص کسی دوسرے شخص کے سامنے آپؐ کا ذکر کرتا رہے گا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ خدائی وعدہ پورا ہوتا رہے گا،ہمیں  دیکھنا یہ ہے کہ ہم آپؐ کانام لینے پر اکتفا کررہے ہیں یا آپؐ کے ذکر سے اپنے قلب و ذہن کو معمور رکھتے ہیں، خود مستفید ہوتے ہیں یا اوروں کو بھی مستفید ہونے کا موقع دیتے ہیں؟ ہر وہ شخص جو ذکر سن رہا ہے،اُس پر ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے ذکر کرے یعنی آپؐ کے اُسوۂ حسنہ کو عام کرتا رہے۔ جو لوگ اس ذمہ داری کو سمجھتے ہیں اُن میں بھی بیشتر وہ ہیں جو عبادت و ریاضت میں تو طاق ہیں مگر آپؐ کی سیرت کو عام کرنے میں متحرک نہیں رہتے۔ دورِ حاضر میں جب اہانت کرنے والوں کی کمی ہے نہ ہی غلط فہمیاں پھیلانے والوں کی، جن برادران وطن کے ذہن آلودہ نہیں ہوئے اور جو غیر جانبدار ہیں وہ نبیؐ کے ماننے والوں میں نبیؐ کے اوصاف کا پرتو دیکھنا چاہتے ہیں، وہ باتیں نہیں سننا چاہتے جو عمل کے بغیر اُنہیں بتائی جائیں تو اُن کی حیثیت دعوؤں کی ہوگی۔مختصر یہ کہ حضور علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کو عوام تک پہنچانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس تک بھی آپؐ کا پیغام پہنچانا مقصود ہو اُسے عملی شکل میں ڈھل کر بتایا جائے۔ بہ الفاظ دیگر، عمل کے بغیر لفظی پیغام سن کر برادران وطن اگر یہ کہیں تو کیا غلط ہوگا کہ حضورؐ جیسے تھے ویسے آپ کیوں نہیں؟ اگر یہ سوال ہمارے سامنے آئے تو کیاہم شرمسار نہ ہونگے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK