کسی سڑک حادثے کے سلسلے میں تین طرح کے ردعمل سماج میں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص اپنی نگاہوں کے سامنے حادثہ دیکھ رہا ہے تو اُچھل پڑتا ہے۔ اگر کسی اور کی زبانی سن رہا ہے تو تھوڑی دیر ہمہ تن گوش رہتا ہے اور اگر دور دراز سے آتی ہوئی خبر سماعت کرتا ہے تو کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کرتا
کسی سڑک حادثے کے سلسلے میں تین طرح کے ردعمل سماج میں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص اپنی نگاہوں کے سامنے حادثہ دیکھ رہا ہے تو اُچھل پڑتا ہے۔ اگر کسی اور کی زبانی سن رہا ہے تو تھوڑی دیر ہمہ تن گوش رہتا ہے اور اگر دور دراز سے آتی ہوئی خبر سماعت کرتا ہے تو کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کرتا۔اُس وقت بھی ردعمل کی کیفیت اسی طرح بدلتی ہے جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حادثے کا تعلق کس سے ہے۔ کوئی ’’اپنا‘‘ ہے تو ردعمل شدید ہوتا ہے، ورنہ ’’سرسری‘‘ کی حد سے آگے نہیں بڑھتا۔ ردعمل کتنا سرسری اور کتنا شدید ہوگا اس کا انحصار حادثہ کی نوعیت پر بھی ہوتا ہے۔ بڑا حادثہ زیادہ لوگوں کو متاثر کرتا ہے، معمول کے حادثات جیسا ہو تو اتنا متاثر نہیں کرتا۔ بلاشبہ یہ الگ الگ یہ پیمانے نہ تو خود ساختہ ہیں نہ ہی غیر فطری مگر ایسے دور میں جب چھوٹے موٹے حادثوں سے لے کر بڑے اوربھیانک حادثوں تک، ہمارے ملک کی موٹرگاڑیاں اور سڑکیں روزانہ خون میں نہاتی ہیں ، ردعمل سے زیادہ ضروری یہ فکر کرنا ہے کہ حادثوں پر کس طرح قابو پایا جائے۔ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے مرکزی وزیر نتن گڈکری نے جنوری ۲۵ء میں بتایا کہ سال ۲۰۲۴ء میں ، سڑک حادثات میں ایک لاکھ ۸۰؍ ہزار افراد فوت ہوئے۔ یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں اور اغلب ہے کہ ہلاکتیں اس سے کافی زیادہ ہوں ۔
حادثات پر گفتگو ہو تو اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ روز بہ روز ٹریفک بڑھ رہا ہے، اب بھی کئی علاقوں میں سڑکیں خستہ حال ہیں ، گاڑی بان ٹریفک کے اُصولوں کی پابندی نہیں کرتے، اپنی میعاد پوری کرلینے والی گاڑیاں بھی سڑکوں پر دوڑتی ہیں جنہیں روکا بھی گیا تو ’’کچھ لے دے کر‘‘ چھوڑ دیا جاتا ہے، لوگوں کو ریش ڈرائیونگ میں مزا آتا ہے، نشہ کی حالت میں گاڑی چلانے کا رجحان کم تو ہوا ہے مگر ختم نہیں ہوا، اوورلوڈنگ کو روکا نہیں جاسکا ہے وغیرہ۔ ایسی تاویلات کے ذریعہ ہم گویا یہ مان لیتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ تسلیم کہ محکمۂ ٹرانسپورٹ نے جگہ جگہ تنبیہات یا انتباہات کی تختیاں آویزاں کی ہیں ، بعض سڑکوں پررفتار کی حد بھی مقررکردی ہے اس کے باوجود حادثات کو روکنا ممکن نہیں ہورہا ہے چنانچہ ضروری ہے کہ کچھ الگ سوچا جائے، نئی قسم کی منصوبہ بندی کی جائے، جن ملکوں میں بہت کم حادثات ہوتے ہیں وہاں کے ٹریفک کا جائزہ لیا جائے، اُن ملکوں سے کچھ سیکھا جائے اور ’’اَپگھات مُکت بھارت‘‘کی فکر کی جائے۔ کیا یہ کوئی مشکل کام ہے؟ کیا اس نوع کا منصوبہ نہیں بن سکتا اور اُس پر عمل ممکن نہیں ؟
اگر حادثات کو روکنے کی زیادہ فکر اُن ریاستو ں (یوپی، تمل ناڈو، مہاراشٹراور ایم پی) کو لاحق ہونی چاہئے جہاں زیادہ حادثے ہوتے ہیں تو اُن ریاستوں کو کم فکر نہیں کرنی چاہئے جہاں کم حادثے ہوتے ہیں ۔ چونکہ ملک میں روزانہ اوسطاً ایک ہزار ۲۶۴؍ سڑک حادثے ہوتے ہیں اس لئے ایک ایک ریاست کو متنبہ رہنا چاہئے۔ ہر حادثہ متاثرین کیلئے یا تو جان لیوا ہوتا ہے یا اُنہیں زخمی کرکے چھوڑتا ہے۔ ’’روڈ ایکسیڈنٹس اِن انڈیا‘‘ (اینوئل رپورٹ) بتاتی ہے کہ حادثوں کے مہلوکین میں بیشتر ۲۵؍ تا ۳۵؍ سال کے لوگ ہوتے ہیں ۔ اس سے مسئلہ کی سنگینی بڑھ جاتی ہے۔ مگر یہ صرف سرکار کا کام نہیں ہے، سرکار سے زیادہ عوام کی ذمہ داری اورگاڑی چلانے والوں کا فرض ہے۔ اگر سماج بیدار نہیں ہوگا، خود پر بریک نہیں لگائے گا، ڈسپلن شکنی سے باز نہیں آئیگا اور نمائشی بہادری کو ترک نہیں کریگا تو کچھ نہیں ہوگا۔