اعلیٰ سرکاری عہدوں کیلئے نجی شعبوں سے افسران کا انتخاب سوِل سروسیز کے ذریعہ ہونے والی تقرریوں کے نظام پر گہرا سوالیہ نشان ہے مگر یہ ہورہا ہے اور تسلسل کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ معاملہ اب اس لئے اُٹھا کہ جوائنٹ سکریٹری، ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر جیسے ۴۵؍ عہدوں کیلئے یوپی ایس سی کی جانب سے لیٹرل انٹری (نجی شعبوں سے براہ راست بھرتی) کا اشتہار جاری کیا گیا جس پر اپوزیشن نے سخت اعتراض کیا
اعلیٰ سرکاری عہدوں کیلئے نجی شعبوں سے افسران کا انتخاب سوِل سروسیز کے ذریعہ ہونے والی تقرریوں کے نظام پر گہرا سوالیہ نشان ہے مگر یہ ہورہا ہے اور تسلسل کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ معاملہ اب اس لئے اُٹھا کہ جوائنٹ سکریٹری، ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر جیسے ۴۵؍ عہدوں کیلئے یوپی ایس سی کی جانب سے لیٹرل انٹری (نجی شعبوں سے براہ راست بھرتی) کا اشتہار جاری کیا گیا جس پر اپوزیشن نے سخت اعتراض کیا اور اسے آئین مخالف نیز دلت، او بی سی اور دیگر طبقات کی حق تلفی قرار دیا۔ آواز تو اپوزیشن بالخصوص اپوزیشن لیڈر (لوک سبھا) راہل گاندھی نے اُٹھائی اور پوری طاقت سے اُٹھائی مگر اس میں چراغ پاسوان بھی شامل ہوئے جن کی پارٹی بی جے پی کی حلیف اور این ڈی اے میں شریک ہے۔
چاروناچار، حکومت کو یہ نوٹیفکیشن رُکوانا پڑا۔ اِس طرح مختصر عرصہ میں یہ تیسرا موقع ہے جب مودی حکومت نے اپنے کسی فیصلے کو بدلا ہے۔ یہ اس پس منظر میں دلچسپ ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران اِس حکومت کا غالب رجحان کسی بھی فیصلے پر قائم رہنے اورکسی کی نہ سننے کا تھا۔ بلاشبہ اس نے تین متنازع زرعی قوانین کو واپس لیا تھا مگر کب؟ ایک سال تک کسانوں کے احتجاج، اس دوران کئی کسانوں کی اموات، مظاہروں کے خلاف طاقت کے استعمال اور لکھیم پور کھیری سانحہ کے بعد۔ وہ بھی اس لئے کہ یوپی اسمبلی الیکشن سر پر تھا اور کسانوں کے احتجاج کے جاری رہتے ہوئے انتخابی مہم کیلئے عوام میں جانا نقصان کا سودا تھا۔
بہرکیف، ایسی حکومت جس کا طرز عمل ماننے کا نہیں ، منوانے کا تھا، دو ماہ کے اپنے موجودہ اقتدار میں تین فیصلوں پر سمجھوتہ کرچکی ہے۔ وقف بورڈ کا معاملہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا گیا، اس کے بعد براڈ کاسٹ بل سرد خانے میں ڈالا گیا اور اب زیر بحث نوٹیفکیشن واپس لیا گیا۔ اس ضمن میں دو باتیں خاص ہیں ۔ پہلی یہ کہ وزیر اعظم مودی نے سوچا ہوگا کہ وہ حلیف جماعتوں کو شیشے میں اُتار لیں گے مگر یہاں اُلٹا ہورہا ہے۔ حلیف جماعتیں مؤثر طریقے سے اُن کے فیصلوں کی راہ میں حائل ہورہی ہیں جو صاف دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اپوزیشن خود کو زور و شور سے منوا رہا ہے۔ تازہ معاملہ میں حکومت کے رول بیک (فیصلہ بدلنے) کا سہرا راہل گاندھی اور دیگر اپوزیشن لیڈروں کے سر بندھے گا جنہوں نے غیر معمولی سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ یہ معاملہ کچھ اس طرح اُٹھایا کہ حکومت کو پسماندہ طبقات میں اپنی ساکھ مزید کمزور ہونے کا اندیشہ لاحق ہوگیا جو پہلے ہی کافی کمزور ہوچکی ہے جس کا ثبوت ۴؍جون کے نتائج سے مل چکا ہے۔
ایک بات اور ہے جو مذکورہ دو باتوں سے زیادہ خاص ہے۔ وہ یہ کہ عوام کی طاقت بار بار خود کو منوا رہی ہے۔ یہ عوام کی طاقت ہی تھی جس نے حالیہ پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کو، جس کا ہدف ’’چار سو پار‘‘ تھا، ۲۴۰؍ پر روک دیا تھا۔ آئندہ بھی جب جب اپوزیشن کسی غلط فیصلے کے خلاف آواز اُٹھائے گا اور حکومت کو رول بیک پر مجبور کرے گا، تب تب محسوس کیجئے گا کہ یہ اپوزیشن کی حمایت میں پڑنے والے ایک ایک ووٹ کی طاقت ہے جو بہت کچھ منوا رہی ہے۔ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں عوام نے اپوزیشن کو یہ طاقت نہیں دی تھی اس لئے من مانے فیصلے ہوتے رہے، اب اُن کی عطا کردہ طاقت فیصلے بدلوا رہی ہے۔ اسے محسوس کرنا ضروری ہے۔