• Sat, 01 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

بستی بسنا کھیل نہیں

Updated: February 01, 2025, 1:51 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

غزہ کے درد کو سمجھنا اُتنا ہی مشکل ہے جتناصحرا میں ریت کے ذرات کو چھاننا۔ ایک ایک خاندان اپنے کئی کئی افراد کو کھو چکا ہو تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اُن اہل غزہ کو، جو بقید حیات ہیں ، جنگ بندی کے بعد اپنے علاقے میں لوَٹنا کیسا لگ رہا ہوگا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 غزہ کے درد کو سمجھنا اُتنا ہی مشکل ہے جتناصحرا میں  ریت کے ذرات کو چھاننا۔ ایک ایک خاندان اپنے کئی کئی افراد کو کھو چکا ہو تو ہم سمجھ سکتے ہیں  کہ اُن اہل غزہ کو، جو بقید حیات ہیں ، جنگ بندی کے بعد اپنے علاقے میں  لوَٹنا کیسا لگ رہا ہوگا۔ اُنہیں  جہاں  یہ علم ہے کہ گھر کا کون کون فرد موت کی آغوش میں  پہنچ چکا ہے، وہاں  یہ بھی ادراک ہے کہ اب غزہ میں  کچھ نہیں  رہ گیا، سوائے تباہی و تاراجی کے نشانات اور عمارتوں  یا مکانوں  کے ملبوں  کے وہاں  کچھ نہیں  ہے۔ آدمی خواب میں  بھی اپنی بے مکانی دیکھ لے تو ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے گا اور دیر تک اُسے نیند نہیں  آئے گی۔ جب بے مکانی کا تصور یا خواب بھی ڈراؤنا قرار پاتا ہو تب اہل غزہ کے بارے میں  سوچا جاسکتا ہے کہ وہ کس دل سے اپنے خطے کی تباہی کا نظارہ کرینگے اور کس طرح خود کو ازسرنو زندگی کے قابل بنائینگے۔ اگر دُنیا کے تمام ممالک آج سے غزہ کی تعمیر نو میں  مصروف ہوجائیں  اور جتنے بھی وسائل درکار ہیں  سب اہل غز ہ کی خدمت میں  پیش کردیں  تب بھی اسر نو تعمیر کے لئے دہائیاں  درکار ہوں  گی۔
 کم و بیش ڈیڑھ سال اسرائیلی جارحیت جاری رہی مگر عالمی برادری نے سوائے تماشا دیکھنے کے کچھ نہیں  کیا۔ اس برادری سے توقع نہیں  کی جاسکتی کہ وہ، کم از کم اب، دل کھول کر مدد کرے گی۔ یہ اسرائیل کو دوبارہ جارحیت سے روکے رکھے تو یہی بڑی بات ہوگی مگر ہمیں  اس کی ضمانت دیتا ہوا بھی کوئی دکھائی نہیں  دیتا۔ اقوام متحدہ یا دیگر عالمی اداروں  سے توقع اس لئے فضول ہے کہ ان کے بھی ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ انہیں  وسائل بھی انہی ملکوں  سے آتے ہیں  جن کے پاس طاقت ہے مگر جو اپنی طاقت کو جبر و استحصال روکنے کے بجائے اس کو بڑھاوا دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ ایسے حالات میں  اسرائیل سے جنگ جیتنے والے غزہ کو اپنی تعمیر نو کی جنگ بھی خود ہی لڑنی ہوگی۔ یہ کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ نہ تو یہ سطریں  تحریر کرنے والے کو ہے نہ ہی پڑھنے والے کو۔ فانی بدایونی نے کہا تھا: ’’بستی بسنا کھیل نہیں  ہے، بستے بستے بستی ہے‘‘۔ یہ ایسی بستی تھی جو اپنے آپ میں  کئی بستیوں  کو بسائے ہوئے تھی، جس کی آغوش میں  ہزاروں  خاندان اور ان خاندانوں  کے ہزاروں  نفوس جبر کے ماحول ہی میں  سہی، اپنی زندگی پوری جرأت اور جوانمردی کے ساتھ گزار رہے تھے۔ تنکا تنکا جوڑنے والے پرندوں  کو صیاد کی نگاہوں  اور نشانے کا اندازہ ہوتا ہے مگر وہ اس سے ڈرتے اور گھبراتے نہیں  ہیں ، اہل غزہ بھی نہیں  گھبرائے، انہوں  نے ایک بہت بڑی فوجی طاقت کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور جیتے۔ یہ اور بات ہے کہ اس جیت کیلئے انہیں  بہت کچھ ہارنا اور کھونا پڑا۔
 اب جو انہیں  موقع ملا ہے دوبارہ خود کو بسانے کا تو یہ عمل انہیں  ایک نئی آزمائش میں  مبتلا کرے گا مگر وہ قوم جو اتنی بڑی فوجی طاقت سے نہیں  ڈری اس کے بارے میں  قوی امید ہے کہ ایک بار پھر داد شجاعت دینے کیلئے کمربستہ رہے گی اور ’’نئے غزہ‘‘ کا سنگ بنیاد رکھنے میں  تاخیر نہیں  کرے گی، وسائل کہاں  سے آئینگے ہم نہیں  جانتے، کتنے کم وقت میں  یہ ہمالیائی کام مکمل ہوگا یہ بھی ہم نہیں  جانتے، ہم صرف اتنا جانتے ہیں  کہ غزہ کے لوگ، حالات کی سختی سے نمٹنا خوب جانتے ہیں ۔ جن پر قیامت گزر چکی ہو ان کا حوصلہ چٹانوں  کو شرمندہ کرسکتا ہے۔ غزہ کی موجودہ نسل ہی نہیں  اس سے قبل کی نسلوں  نے بھی چٹان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ شجاعت و بہادری کی سرپرستی میں  پرورش پانے والی موجودہ نسل بھی بہادری میں  کچھ کم نہیں  ہے۔

gaza strip Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK