• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بیاناتِ ہیمنت بسوا: افسوس، حیرت اور ترس

Updated: August 31, 2024, 3:57 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

آسام کے معاملات و مسائل کو چھوڑ کر وزیر اعلیٰ آسام ہیمنت بسوا شرما ایک ہی مقصد پر خو دکو مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ وہ ہے مسلم دشمنی۔

Himanta Biswa. Photo: INN
ہمنتا بسوا۔ تصویر : آئی این این

آسام کے معاملات و مسائل کو چھوڑ کر وزیر اعلیٰ آسام ہیمنت بسوا شرما ایک ہی مقصد پر خو دکو مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ وہ ہے مسلم دشمنی۔ ہمیں اُن کے اِس طرز ِ عمل پر افسوس سے زیادہ حیرت ہے اور حیرت سے زیادہ اُن پر ترس آتا ہے:
  افسوس اسلئے ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں جس کے اولین تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ ریاست کے ہر فرقے اور طبقے کے عوام کو ساتھ لے کر چلا جائے، اُن کا اعتماد حاصل کیا جائے، اُنہیں ہندو مسلم نہیں ریاست کا شہری سمجھا جائے اور اُن کے مسائل کو حل کیا جائے، مگر شرما نے مسلم دشمنی کو طرۂ امتیاز بنالیا ہے۔ 
 حیرت اس لئے ہوتی ہے کہ اپنا سیاسی قد بڑھانے کیلئے وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر کر نہیں رہے ہیں۔ کرنے کے کاموں میں سب سے اہم یہ ہے کہ بلا تفریق مذہب تمام آسامیوں کے مسائل کے حل کی کوشش ہو۔

یہ بھی پڑھئے:آہ اے جی نورانی!

حیرت ہے کہ اُنہوں نے دیگر معاملات کو بالائے طاق رکھ دیا اور مسلم دشمنی کو اپنا شناخت نامہ بنالیا۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ موصوف بی جے پی میں شمولیت سے پہلے ۱۴۔۱۵؍ سال کانگریس میں رہے اور حکومت ِ آسام میں کئی اہم عہدوں پر فائز کئے گئے۔ کیا یہ مقام حیرت نہیں ہے کہ ایک سابق کانگریسی ایسی زبان اور ایسی باتیں بول رہا ہے؟ سوچئے دورِ حاضر میں نظریات کی کیا حیثیت ہے۔ ڈیڑھ دہائی کانگریس میں رہنے کے بعد جب ایک لیڈر بی جے پی میں گیا تو پارٹی کا اتنا وفادار ہوگیا کہ برسوں بلکہ دہائیوں سے وفاداری نبھانے والے اُس کے آگے پانی بھرنے لگے۔
 ترس اسلئے آتا ہے کہ ہیمنت بسوا شرما کی مسلم دشمنی کا سبب، ہمارے خیال میں، اپنی پارٹی میں نمبر تھری پوزیشن حاصل کرنا ہے۔ مودی اور امیت شاہ کے بعد اِس وقت پارٹی کا تیسرا سب سے نمایاں چہرا یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی کا ہے مگر اُن کی نمبر وَن اور نمبر ٹو سے بنتی نہیں ہے۔ چند ہفتوں پہلے تک، بحث و مباحثہ کا یہ بھی ایک موضوع تھا کہ کیا یوگی کو ہٹانے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوگی بھلے ہی نمبر تھری پر ہوں، اُن کی پوزیشن مستحکم نہیں ہے۔ کل اگر اُنہیں حاشئے پر لانے کی کوشش کی گئی اور وہ کامیاب بھی ہوگئی تو اُن کی جگہ پر ایسے ہی کسی لیڈر کی ضرورت ہوگی جو بڑھ چڑھ کر ہندوتوا کی زبان بولتا ہو۔ اس لئے، ہمارا قیاس یہی ہے کہ موصوف ’’نمبر تھری‘‘ پوزیشن کیلئے مسلم دشمنی کا سہارا لے رہے ہیں تاکہ اعلیٰ کمان کو یہ سمجھایا جاسکے کہ دیکھئے مَیں کتنے ’’کام کا‘‘ ہوں۔ 
 اگر مقصد ’’نمبر تھری‘‘ پوزیشن کا حصول نہیں ہے تو بہت ممکن ہے کہ شرما کی  بیان بازی کا تعلق آسام کے اسمبلی انتخابات سے ہو۔ شمال مشرقی ہندوستان کی اِس سب سے بڑی ریاست کا آئندہ اسمبلی الیکشن ۲۰۲۶ء میں ہوگا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان بیان بازیوں کا الیکشن سے کیا تعلق جو ابھی کم و بیش ۲۰؍ ماہ دور ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بی جے پی اعلیٰ کمان کی بے شمار انتخابی حکمت عملیوں میں سے ایک یہ ہے کہ کسی بھی وزیر اعلیٰ کو الیکشن سے پہلے ہٹا کر کسی دوسرے کو وزیر اعلیٰ بنادیا جائے۔ یہ گجرات میں ہوا تھا پھر ہریانہ میں بھی ہوا۔ ہوسکتا ہے شرما کو یہ اندیشہ ہو کہ کہیں مذکورہ فارمولے کے تحت اُنہیں بھی چلتا نہ کردیا جائے! اسی لئے وہ ہر ایسا نسخہ آزما رہے ہیں جو اُن کا قد بڑھائے۔ بی جے پی میں پولرائزیشن فیکٹر بہت اہم ہے۔ شرما اسی کیلئے خود کو وقف کئے ہوئے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK