Inquilab Logo Happiest Places to Work

مایوسی اور اُمید کے درمیان

Updated: April 14, 2025, 1:37 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اس سال جنوری میں ترکی کی نیوز ایجنسی انادولو کی ویب سائٹ پر ویسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر امیریٹس آف لاء مائیکل لنک کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے یہ بتایا تھا کہ فلسطین کے حق میں سال۲۰۲۵کیسا ہوگا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اس سال جنوری میں  ترکی کی نیوز ایجنسی انادولو کی ویب سائٹ پر ویسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر امیریٹس آف لاء مائیکل لنک کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں  انہوں  نے یہ بتایا تھا کہ فلسطین کے حق میں  سال۲۰۲۵کیسا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جب ساری دنیا معدوم ہوتے امکانات کا مشاہدہ کررہی تھی اور اب بھی کررہی ہے، مائیکل لنک کوئی ایسا منظرنامہ کیسے پیش کرسکتے تھے جو خوشگوار احساس پیدا کرے چنانچہ انہوں  نے جو پہلی بات لکھی وہ یہی تھی کہ امریکہ کے صدر کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ کا انتخاب حالات کوسنورنے نہ دینے میں  اہم کردار ادا کریگا۔ اس سلسلے میں  انہوں  نے یہ بھی بتایا تھا کہ انہوں  نے کئی تقرریاں  مشرق وسطیٰ کو ذہن میں  رکھ کر کی ہیں  مثلا وزیر خارجہ، اسرائیل کیلئے سفیر اور دو علاقائی نمائندے یہ سب نیتن یاہو کیلئے ٹرمپ کا سفارتی تحفہ ہیں ۔ مائیکل لنک نے ٹرمپ کی ایک خصوصیت یہ بتائی تھی کہ وہ طاقتور کا ساتھ دیتے ہیں  اور کمزور کی پروا نہیں  کرتے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں  تھی مگر جب کوئی ایسا شخص، جو زیادہ جانتا ہے، وہی بات زبان پر لاتا ہے تو گویا اس کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ صدارت کا حلف لینے سے پہلے انہوں  نے اسرائیل پر جنگ بند کرنے کیلئے دباؤ ڈالا مگر صدر بننے کے بعد سےوہ اور نیتن یاہو ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہورہے ہیں ۔ وہ اسرائیلی حکومت کی منہ بھرائی میں  کسر نہیں  اٹھا رکھ رہے ہیں ، یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا اس میں  کسی کو کوئی شبہ نہیں  ہوسکتا۔
  حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی امریکی صدر اسرائیل کو ناراض نہیں  کرتا۔ ٹرمپ تو دنیا کی ناراضگی مول لے سکتے ہیں  اسرائیل کو دگنا خوش کرنے کیلئے۔ اسرائیل میں  انتہائی دائیں  بازو کا دبدبہ ہے، ٹرمپ کا تعلق بھی دائیں  بازو سے ہے۔ دو دیوانے مل بیٹھے ہیں  تو ’’خوب گزرے گی‘‘ یہ تو طے ہے۔ وہی ہورہا ہے۔ پہلے ٹرمپ نے کہا غزہ خالی کر دو، نیتن یاہو نے جنگ بندی کو ٹھکرا دیا، دوبارہ بمباری شروع کردی اور منصوبہ واضح طور پر سمجھ میں  آرہا ہے کہ غزہ خالی کروانا مقصد ہے اور اس پر تیزی سے عمل ہورہا ہے۔ رہا سوال ان ملکوں  کا جو فلسطینی کاز کے ساتھ رہے ہیں ، تو ان میں  اگر اتنی جرأت ہوتی اور وہ کوئی متحدہ محاذ بناتے جو معاشی بنیادوں  پر کام کرتا تو نوبت یہاں  تک نہ پہنچتی۔ انہوں  نے میٹنگیں  کیں ، تھوڑا بہت اثر انداز بھی ہوئے مگر جیسی نیت ویسی برکت کے مصداق کوئی خاص نتیجہ نہیں  نکلا۔ الگ الگ ملکوں  کا جو ردعمل ٹیرف کی بنیاد پر دیکھنے کو ملا کیا اس کا دس فیصد بھی فلسطین کے معاملے میں  دیکھنے میں  آیا؟ ہمیں  افسوس ہے اور یہ کہتے ہوئے زیادہ افسوس ہورہا ہے کہ ہم غزہ کو ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھ رہے ہیں ، خدا کرے یہ بات، یہ اندیشہ، صد فیصد غلط ثابت ہو، مگر لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔رہا یہ سوال کہ فلسطینی مزاحمت کا کیا ہوگا، اتنی شہادتوں  کا کیا ہوگا، ارض غزہ پر اہل غزہ کے حق کا کیا ہوگا، تو ہم اس سلسلے میں  مایوس نہیں  ہیں ، فلسطینی مزاحمت رہے گی اور شہیدوں  کا خون رائیگاں  نہیں  جائیگا یہ طے ہے۔ بعض اوقات حالات کے بدلنے میں  وقت لگتا ہے۔ سو ہمیں  یقین ہے کہ دیر لگے گی، بظاہر شکست یقینی ہو جائیگی مگر پھر منظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہوگا۔ غزہ کو خالی ہوتا دیکھ کر جو مایوسی طاری ہورہی ہے، اس کے پہلو میں  فتح فلسطین کی یہ امید بھی ہے۔بعض اوقات  یہ امید مایوسی پرحاوی ہوجاتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ  مایوسی  امید پر حاوی ہوجاتی ہے ۔ گزشتہ ڈیڑھ پونے دو سال سے یہی صورتحال ہے مگر اہل غزہ کی آنکھوں  میں  جھانک کر دیکھئے، ان آنکھوں  میں ، جو ڈیڑھ سال سے تباہی کے مناظر دیکھ رہی ہیں ، امید کے چراغوں  کی لو دکھائی دیتی ہے۔

gaza strip Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK