اب سے ٹھیک چالیس سال پہلے، بھوپال کے باشندوں کیلئے ۲۔۳؍ دسمبر کی درمیانی شب قیامت خیز ثابت ہوئی تھی۔ تب سے لے کر اب تک کم از کم دو نسلیں جوان ہوچکی ہیں ۔ نئی نسل کے افراد نے اُس بھیانک رات کی قیامت خیزی کی روداد سنی ہے مگر جو لوگ یونین کاربائیڈ نامی کمپنی سے نکلنے والی زہریلی گیس کی زد پر آئے اور خدا کے فصل سے اب بھی بقید حیات ہیں ، اُن سے اُس رات کی تفصیل سنی جاسکتی ہے کہ کیا ہوا،
اب سے ٹھیک چالیس سال پہلے، بھوپال کے باشندوں کیلئے ۲۔۳؍ دسمبر کی درمیانی شب قیامت خیز ثابت ہوئی تھی۔ تب سے لے کر اب تک کم از کم دو نسلیں جوان ہوچکی ہیں ۔ نئی نسل کے افراد نے اُس بھیانک رات کی قیامت خیزی کی روداد سنی ہے مگر جو لوگ یونین کاربائیڈ نامی کمپنی سے نکلنے والی زہریلی گیس کی زد پر آئے اور خدا کے فصل سے اب بھی بقید حیات ہیں ، اُن سے اُس رات کی تفصیل سنی جاسکتی ہے کہ کیا ہوا، کیسے ہوا اور جو کچھ ہوا اُس کے بعد کس طرح اُن کی زندگیاں دوبارہ کبھی معمول پر نہیں آئیں ۔ الگ الگ عدالتوں میں مقدمات ہنوز زیر سماعت ہیں اور وہ لوگ جن کیلئے ایک ایک دن اور ایک ایک رات گزارنا مشکل ہے، چالیس برس سے راحت اور خاطرخواہ معاوضے کو ترس رہے ہیں ۔
اِس دوران زمانہ بدلا، حالات بدلے، حکومتیں بدلیں مگر جو نہیں بدلا وہ متاثرین کی زندگی ہے، اُن میں سے بے شمار اب اس دُنیا میں نہیں کیونکہ زہریلی گیس نے اُنہیں کئی طرح کے سنگین امراض سے متاثر کردیا تھا، مگر جو لوگ اِس دُنیا میں ہیں وہ اُس گیس کے مابعد اثرات سے اب بھی نبردآزما ہیں ۔ اُن کا درد سمجھنے کیلئے شاید قانونی لڑائی لڑنے والے بھوپال گیس پیڑھت سنگھرش سہیوگ سمیتی کے کنوینر این ڈی جے پرکاش کی یہ بات کافی ہو جو اُنہوں نے اخبارات سے گفتگو کے دوران کہی کہ ’’ہم اسی اُمید میں جی رہے ہیں کہ شاید کوئی دن آئے جب کوئی جج ہمارے درد کی شدت کومحسوس کرتے ہوئے ہماری داد رسی کرے۔ ‘‘
پچھلے چالیس سال میں عدالتی فیصلے بھی آئے، متاثرین کو تھوڑا بہت معاوضہ بھی ملا مگر جتنا ملنا چاہئے تھا یا جتنے کا وعدہ تھا، اُتنا نہیں ملا۔ اسی لئے نئے مقدمات قائم ہوئے جو ہنوز عدالتو ں میں زیر سماعت ہیں ۔ کاش ہمارا عدلیہ توجہ دے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ سماجی اور فلاحی تنظیموں نے متاثرین کو فراموش نہیں کیا ہے، وہ اُن کیلئے دیوانہ وار لڑرہے ہیں ، ایسے دور میں بھی لڑرہے ہیں جب الگ طرح کی لڑائیوں کیلئے نئے محاذ بنالئے گئے ہیں ، ان محاذوں کو تقویت پہنچانے کیلئے حکومت کے ہمنوا ذرائع ابلاغ روزانہ بحثیں کرتے ہیں مگر جو اصلی اور سچی لڑائی لڑی جانی چاہئے تھی وہ ٹی وی کے مباحث میں نہیں ہے، وہ بھوپال گیس متاثرین خود لڑرہے ہیں یا اُن کی تنظیمیں لڑرہی ہیں ۔ چالیس سال کا تھکا دینے والا سفر ہنوز جاری ہے مگر متاثرین نیز اُن کی تنظیموں کو تھک جانا، ہار جانا یا لڑائی روک دینا گوارا نہیں ۔ ان کے حوصلے اب بھی بلند ہیں جبکہ دُنیا بھی آگے بڑھ چکی ہے اور ہمارا ملک بھی۔نئے دور اور نئے حالات میں نئے موضوعات اور نئے مسائل توجہ کا مرکز بن گئے ہیں ، ان میں بھوپال گیس سانحہ کہیں بھی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے : ای وی ایم کا تنازع ختم ہونا چاہئے
اس سانحہ سے جو کچھ سیکھا جانا چاہئے تھا، اگر وہی سیکھ لیا گیا ہوتا تو کچھ کہنے کیلئے ہوتا۔وہ صنعتی ادارے جو فضائی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں ، کسی روک ٹوک کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ ورلڈ ایئر کوالیٹی رپورٹ ۲۰۲۳ء میں جن ملکوں کو سب سے زیادہ آلودہ قرار دیا گیا ہے اُن میں ہمارا مقام تیسرا ہے۔ اسی رپورٹ میں دُنیا کے ۵۰؍ ایسے شہروں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں کی فضائی آلودگی سب سے زیادہ ہے۔ اُن میں ہمارے پانچ دس یا پندرہ نہیں ، بیالیس شہر ہیں ۔ اگر اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی ہمارا ملک عوام کو صاف ستھری ہوا کی ضمانت نہیں دے سکا ہے تو یہ صاف ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔