لوناولہ کے بھوشی ڈیم کا سانحہ، جس میں ایک ہی گھرانے کے پانچ افراد ڈوب گئے، نہایت افسوسناک ہے۔ جن لوگوں نے اس سانحہ کا ویڈیو دیکھا ہے، انہوں نے ساحل پر موجود رشتہ داروں کی بے بسی بھی دیکھی ہوگی جو اپنے عزیزوں کی غرقابی کا منظر دیکھتے رہے اور کچھ نہیں کرسکے۔ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔
لوناولہ کے بھوشی ڈیم کا سانحہ، جس میں ایک ہی گھرانے کے پانچ افراد ڈوب گئے، نہایت افسوسناک ہے۔ جن لوگوں نے اس سانحہ کا ویڈیو دیکھا ہے، انہوں نے ساحل پر موجود رشتہ داروں کی بے بسی بھی دیکھی ہوگی جو اپنے عزیزوں کی غرقابی کا منظر دیکھتے رہے اور کچھ نہیں کرسکے۔ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ اگر ان کی جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو وہ بھی کچھ نہ کر پاتا۔ اتنے تیز پانی سے کسی کو بچاکر محفوظ جگہ پر لے آنے میں انہی کو کامیابی مل سکتی ہے جنہیں ایسی مہم جوئی میں مہارت ہو، جو موجوں کی طغیانی کا مقابلہ کرنے کی تربیت حاصل کرچکے ہوں اور انہیں اس کی مشق بھی ہو۔ ایک عام آدمی اگر تیراک بھی ہو تو پانی کی ہولناکی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ موسم باراں میں اس نوعیت کے حادثات میں اضافہ ہوجاتا ہے اس لئے تفریح کی غرض سے ایسے مقامات، مثلا جھرنا، آبشار، بند، جھیل وغیرہ، کی سیر کرنے والوں کو کمال احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ ان کی چھٹی حس ہمہ وقت بیدار رہنی چاہئے۔ معمر افراد، خواتین اور بچوں کے تحفظ کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
بھوشی ڈیم سانحہ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح پانی کا بہاؤ اچانک تیز ہوا اور پھر چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ متاثرین کے قریب کوئی ایسی شے نہیں تھی جسے وہ ڈھال بناتے۔ خشکی پر کھڑے ہوئے لوگوں نے درخت کی شاخ توڑ کر اُن کی جانب اُچھالی۔ انسان گھبراہٹ میں بمشکل کچھ کرپاتا ہے جبکہ دوسری طرف تیز بہاؤ میں قدم مضبوطی کے ساتھ زمین یا چٹان پر نہیں رکھے جاسکتے۔ پانی کی طاقت کے آگے انسانی طاقت جواب دے جاتی ہے۔ زیر بحث ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح تمام دس افراد کی اپنی مزاحمت پانی کی طاقت کے آگے بے وقعت ہوگئی۔ سب ایک دوسرے کو مضبوطی سے پکڑلیتے تب بھی کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ ان کی مجموعی طاقت موجوں کی طغیانی کے مقابلے کیلئے ناکافی ہوتی۔
قصہ مختصر یہ کہ جانے والے چلے گئے۔ ان کا افسوس ہے۔ ایک چار سالہ بچے کی تلاش تا دم تحریر جاری ہے۔ خدا کرے کہ وہ معجزاتی طور پر بچ گیا ہو۔ اگر یہ معجزہ نہ ہوا ہو تب بھی خدا کرے کہ اس کی نعش مل جائے، ماں باپ اور اہل خانہ کو آخری دیدار اور تجہیز و تکفین کی تسلی تو رہے گی۔ بھوشی ڈیم جانے والے لوگوں میں یہ قافلہ، جو ہڑپسر (پونے) سے روانہ ہوا تھا، اُنیس افراد پر مشتمل تھا۔ ان میں خوش قسمت رہا وہ نوبیاہتا جوڑا جو تھوڑی دیر پہلے ہی بحفاظت ساحل پر آیا تھا۔
یہ سانحہ نجی گفتگو اور آپسی بحثوں میں کئی دن موضوع بنا رہے گا جس میں ہر زاویہ سے اظہار ِ خیال کیا جائیگا مگر ذکر نہیں ہوگا تو اُن جانبازوں کا جنہوں نے ڈوبنے والوں کو تلاش کیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اُنہیں کتنی مشکلات کا سامنا ہوا ہوگا۔ ضلع انتظامیہ کو چاہئے کہ سرچ آپریشن کرنے والوں کو انعام و اکرام دے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ماہر تیراکوں کی ٹیم کو ایسی جگہوں پر دن بھر تعینات رکھے بالخصوص کھنڈالا تالاب، گھوبڑ تالاب اور ٹا ٹا ڈک لائن وغیرہ پر جہاں ایسے واقعات ہوچکے ہیں ۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۷ء سے اب تک بھوشی ڈیم کے قریب تین درجن سے زیادہ لوگ غرقاب ہوچکے ہیں ۔ آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے نوجوانوں کو تیراکی میں مہارت کی ترغیب دینا بھی اہم تدبیر ہے۔ جو لوگ تیراکی میں مشاق ہیں اور جانیں بچاچکے ہیں وہ ذاتی دلچسپی کے سبب اس میدان میں آئے۔ اس میں حکومت کی کوششوں کا دخل ہونا چاہئے۔