• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بجٹ کو توقعات پر پورا اُترنا چاہئے!

Updated: July 23, 2024, 1:12 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

آج مرکزی بجٹ پیش کیا جائیگا۔ دوپہر تک بہت کچھ منظر عام پر آچکا ہوگا کہ وزیر مالیات نرملا سیتا رمن قومی معیشت کو کس رُخ پر لے جانا چاہتی ہیں اور کیا وز یر اعظم نریندر مودی کی سابقہ دو حکومتوں کے دوران پیش کئے گئے کم و بیش دس بجٹ کے مقابلے میں یہ بجٹ مختلف ہوگا؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

آج مرکزی بجٹ پیش کیا جائیگا۔ دوپہر تک بہت کچھ منظر عام پر آچکا ہوگا کہ وزیر مالیات نرملا سیتا رمن قومی معیشت کو کس رُخ پر لے جانا چاہتی ہیں  اور کیا وز یر اعظم نریندر مودی کی سابقہ دو حکومتوں  کے دوران پیش کئے گئے کم و بیش دس بجٹ کے مقابلے میں  یہ بجٹ مختلف ہوگا؟ نیز اس پر اُن پارٹیوں  کا بھی کوئی رنگ یا اثر دکھائی دیگا جن کی حمایت پر حکومت ٹکی ہوئی ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں  ہوگا مگر ملک کی آبادی کا بڑا حصہ یہ بھی دیکھنا چاہے گا کہ بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف حکومت کا کیا منصوبہ ہے۔ کیا عوام کو کچھ راحت ملے گی؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اہم سوال ہے کہ کیا حکومت کے پاس غیر منظم زمرے اور چھوٹی صنعتی و کاروباری اکائیوں  کیلئے بھی کوئی پروگرام ہے جو نوٹ بندی کے نفاذ، جی ایس ٹی کی دشواریوں  اور کووڈ کے دَور کی ہولناکیوں  سے اِس قدر متاثر ہوئیں  کہ یا تو ان کا وجود ہی ختم ہوگیا یا گھسٹتے گھسٹتے چلنا ان کا مقدر بن گیا۔ 
 بجٹ سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ اس ’’کِرشی پردھان دیش‘‘ کے کسانوں  کو خاص راحت پہنچے۔ کل تک کسانوں  کی قدرومنزلت میں  کمی نہیں  کی جاتی تھی مگر اِدھر کچھ عرصہ سے اُن کی خدمات کو فراموش کرکے اُن کی پیٹھ دیوار سے لگا دی گئی ہے۔ تین عدد متازع زرعی قوانین تو واپس لے لئے گئے مگر زرعی شعبے سے وابستہ لوگوں  یعنی کسانوں  اور مزدوروں  کی حالت دگرگوں  ہی ہے۔ بلاشبہ مٹھی بھر کسان خوشحال ہیں  اور اُنہیں  روزمرہ کے مسائل سے جوجھنا نہیں  پڑتا مگر اکثریت ایسے کسانوں  کی ہے جن کی آمدنی اِس قدر بھی نہیں  رہ گئی ہے کہ سکون کی روٹی میسر آسکے۔فصلوں  کی پیداوار پر خرچ اتنا آتا ہے کہ ان کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ کیا آج کا بجٹ ان کیلئے راحت کا سامان کرے گا؟ کیا انہیں  ایم ایس پی کی قانونی گیارنٹی دے گا؟ کیا خاطرخواہ کھاد اور حسب منشاء سبسیڈی انہیں  مل سکے گی؟ اگر ان سوالوں  کا جواب اثبات میں  ہے تو اس بجٹ کا خیرمقدم کیا جائیگا، اگر نفی میں  ہے تو بجٹ کو بے مصرف دستاویز کے علاوہ کوئی اور نام نہیں  دیا جاسکے گا۔ 
 لاک ڈاؤن کے دوران جب مزدور تعمیراتی مراکز سے نکل نکل کر اپنے گھروں  کی طرف بڑھنے لگے اور سیکڑوں  میل کی مسافت پیدل طے کرنے کا خطرہ مول لینے لگے تو ملک بھر کی توجہ اُن پر مرکوز ہوگئی تھی۔ تب ہی بہت سوں  کو ان کی حالت پر غور کرنے کا موقع ملا۔ ان میں  کئی تو ایسے تھے جنہیں  اس ’’مخلوق‘‘ کے بارے میں  سوچنے کا پہلی بار موقع ملا تھا۔ مگر کیا ہوا؟ کیا ان کی حالت بہتر ہوئی؟ کیا حکومت بتا سکتی ہے کہ ’’ای شرم کارڈ‘‘ حاصل کرنے والے مزدوروں  کی زندگی میں  کیا تبدیلی رونما ہوئی اور اُنہیں  کون سی سہولتیں  میسر آرہی ہیں ؟ 
 بلاشبہ، ملک میں  ۷ء۴؍ کروڑ لوگ ہی انکم ٹیکس ریٹرن بھرتے ہیں  اور ان میں  سے ۷۰؍ فیصد وہ ہیں  جو ظاہر کرتے ہیں  کہ اُن پر ایک روپیہ بھی آمدنی ٹیکس واجب الادا نہیں  مگر اِس ملک میں  کون ہے جو ٹیکس ادا نہیں  کرتا۔ آمدنی ٹیکس ادا کرنے والے بھلے ہی کم ہوں  مگر جی ایس ٹی تو سب پر لازم ہے۔ فاقہ کش بھی کچھ خریدتا ہے تو جی ایس ٹی اداکرتا ہے۔ آج کے بجٹ کو جی ایس ٹی کی شرح میں  قابل ذکر تخفیف کا بجٹ ہونا چاہئے۔ اگر ایسا ہوا تو غریب ہو یا امیر، ملک کے ہر شہری کو راحت کا سانس لینے کا موقع ملے گا بالخصوص اُن لوگوں  کو جنہیں  ’’آمدنی اٹھنی، خرچا روپیہ‘‘ کا شکوہ ہے۔ ان کیلئے چھوٹی راحت بھی بڑی ہوگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK