• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جمہوریت کی ناقدری

Updated: August 03, 2024, 2:05 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

مہذب معاشرہ میں لوگ ایک دوسرے کی سنتے ہیں اور اختلاف کے باوجود اظہار رائے کے معاملے میں سنجیدہ اور شائستہ رہتے ہیں ۔ چیخنا چلانا، تنقید کے بجائے تحقیر کا انداز اپنانا، نیچا دکھانا، اشتعال دلانے کی کوشش کرنا، وغیرہ، یہ ایسے حربے ہیں جو ہندوستانی سماج کا حصہ نہیں رہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 مہذب معاشرہ میں  لوگ ایک دوسرے کی سنتے ہیں  اور اختلاف کے باوجود اظہار رائے کے معاملے میں  سنجیدہ اور شائستہ رہتے ہیں ۔ چیخنا چلانا، تنقید کے بجائے تحقیر کا انداز اپنانا، نیچا دکھانا، اشتعال دلانے کی کوشش کرنا، وغیرہ، یہ ایسے حربے ہیں  جو ہندوستانی سماج کا حصہ نہیں  رہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں  لوگ کچھ غلط ہوتا ہوا دیکھتے تو اُسے روکنے کی کوشش کرتے تھے، روکنے کی استطاعت نہ ہوتی تو اُسے دل سے بُرا کہتے تھے۔ یہی معاشرہ اپنے نمائندے منتخب کرتا تھا جو لوک سبھا پہنچتے تھے اور اختلافات کے باوجود متحد رہتے تھے، ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اور مخالف نظریہ کے باوجود مدمقابل کی تحقیر نہیں  کرتے تھے۔ اندرا گاندھی تعلیم یافتہ، تیز طرار اور بَلا کی ذہین خاتون تھیں  مگر مخالف لیڈروں  کی باتیں  غور سے سنتی تھیں  اور اظہار رائے کی قدر کرتی تھیں ۔ 
 اب یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ حکمراں  جماعت اور اپوزیشن پارٹیوں  میں  ہمہ وقت کشیدگی رہتی ہے بلکہ یوں  کہئے کہ ان میں  ٹھنی رہتی ہے۔ ایک رکن پارلیمان اظہار خیال کو اُٹھتا ہے تو فقرے بازی شروع ہوجاتی ہے، دوران ِ تقریر اُسے کئی بار ٹوکا جاتا ہے، اسپیکر کو بھی درمیان میں  آنا پڑتا ہے اس کے باوجود بات نہیں  بنتی۔ روکنے ٹوکنے کے بجائے تقریر خاموشی سے سننے کا تحمل کیوں  ختم ہوتا جارہا ہے یہ سوال تمام اراکین پارلیمان سے جواب چاہتا ہے۔ جب ایسا ہے کہ لوک سبھا میں  ہر پارٹی کے لیڈر کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا جاتا ہے تو متعلقہ لیڈران اپنی باری کا انتظار کیوں  نہیں  کرتے اور بیچ بیچ میں  کیوں  ٹوکتے ہیں ؟ 
 اسپیکر لوک سبھا کا صدر ہوتا ہے۔ اُس کی بات ہر رکن پارلیمان کو سننی چاہئے۔ اگر یہ اُصول ہے تو اس کے ساتھ ہی دوسرا اُصول یہ ہے کہ اسپیکر کو بھی غیر جانبدار ہونا چاہئے۔ وہ تمام اراکین پارلیمان کا امیر ہوتا ہے جسے بھلے ہی حکمراں  جماعت نامزد کرتی ہو مگر سب کی نمائندگی اُس کی ذمہ داری ہے۔ اگر اسپیکر جانب داری کے فیصلے سنائے گا تو یقیناً لوک سبھا کا ماحول وہ نہیں  رہ جائیگا جو ہونا چاہئے۔اب سے پہلے کی یعنی سترہویں  لوک سبھا میں  کتنی جانبداری برتی گئی یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔اپوزیشن کے اتنے اراکین کو معطل کیا گیا کہ یقین نہیں  آتا۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ اسپیکرکا پورا پورا جھکاؤ حکمراں  جماعت کی طرف ہے۔ جب یہ صورتحال ہو تو جمہوریت شرمندہ ہی ہوگی، سرخرو تو نہیں  ہوسکتی۔اس تناظر میں  کہا جاسکتا ہے کہ اِن دنوں  پارلیمنٹ کا حال چال اچھا نہیں  ہے ، یہ جمہوریت کی ناقدری کے علاوہ کچھ نہیں  ہے جس کی بدولت عوامی نمائندوں  کو نمائندگی کا اعزاز ملتا ہے۔ 
 پچھلے دِنوں  بی جے پی کے رکن پارلیمان انوراگ ٹھاکور نے نام لئے بغیر راہل گاندھی پر جو تبصرہ کیا وہ بھی گالی دینے جیسا ہی ہے۔ اس سے پہلے کی لوک سبھا میں  کنور دانش علی کیلئے جن الفاظ کا استعمال کیاگیا تھا وہ سراسر گالی تھا۔ اب سن رہے ہیں  کہ راہل گاندھی ہی کے خلاف کارروائی کی تیاری ہو رہی ہے جبکہ ’’جس کی جات کا پتہ نہیں ‘‘ راہل نے نہیں  کہا تھا۔ کارروائی تو انوراگ ٹھاکور کے خلاف ہونی چاہئے مگر یہاں  اُلٹا ہونے لگا ہے۔ رمیش بدھوری کو تنبیہ کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے اور ایک دن میں  ۷۸؍ اراکین (اپوزیشن) کو معطل کرنے کا ریکارڈ بنایا جاتا ہے۔ اس میں  ملک کے پارلیمانی جمہوری نظام کا نقصان ہے جو باعث تشویش ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK