آئندہ روز، عالمی یوم ِ تصویر کشی (ورلڈ فوٹو گرافی ڈے) ہے۔ ہم جس دَور میں ہیں اُس میں ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل ہے اور ہر موبائل میں کیمرہ۔ اس کی وجہ سے تصویر کشی بہت آسان ہوگئی ہے۔ بہ الفاظ دیگر ہر شخص فوٹوگرافر بن گیا ہے۔ مگر، کیا موبائل کے ذریعہ تصویر کھینچنے والا ہر شخص فوٹوگرافر ہے؟
آئندہ روز، عالمی یوم ِ تصویر کشی (ورلڈ فوٹو گرافی ڈے) ہے۔ ہم جس دَور میں ہیں اُس میں ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل ہے اور ہر موبائل میں کیمرہ۔ اس کی وجہ سے تصویر کشی بہت آسان ہوگئی ہے۔ بہ الفاظ دیگر ہر شخص فوٹوگرافر بن گیا ہے۔ مگر، کیا موبائل کے ذریعہ تصویر کھینچنے والا ہر شخص فوٹوگرافر ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں ۔ فوٹوگرافی آرٹ ہے، فن ہے اور فنی رموز سیکھے جاتے ہیں ۔ اگر کسی کو یہ فن ازخود میسر آیا ہے تب بھی اسے نکھارنے کیلئے تعلیم و تربیت لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل ہونے کے باوجود باقاعدہ فوٹوگرافی کی اہمیت آج بھی مقدم ہے ۔ کسی نے کہا ہے: ’’اس فن میں بعض اوقات بہت معمولی چیز بھی بہت بڑا موضوع ہوتی ہے‘‘۔ یہ بات اس لئے کہی گئی ہے کہ فوٹوگرافر جانتا ہے کہ وہ کس چیز کو موضوع بنا رہا ہے۔ اسی لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’ایک تربیت یافتہ فوٹوگرافر جو اولین دس ہزار تصویریں کھینچتا ہے وہ اس کی خراب ترین تصویریں ہوتی ہیں ۔‘‘ بلاشبہ، ہر فن ریاضت چاہتا ہے اور فوٹوگرافی اس اُصول سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
یہ چند باتیں عالمی یوم ِ تصویر کشی کی مناسبت سے ضبط تحریر میں لائی گئی ہیں مگر اس کا ایک اور مقصد ہے۔ آج کل کے طلبہ لکھنے سے پرہیز کرنے لگے ہیں ۔ وہ ہر چیز کا فوٹو نکال لیتے ہیں ۔ ایک تعلیمی جلسے میں ہم نے دیکھا کہ پیش کئے جانے والے پریزنٹیشن میں جو معلومات دی گئی تھیں ، طلبہ اُنہیں ذہن نشین کرنے یا لکھ لینے کے بجائے ہر سلائڈ کا فوٹو نکال رہے تھے۔ ہمیں یہ بات اس لئے ناگوار گزری کہ ہمارے خیال میں ’’لکھنا‘‘ کسی چیز کو ذہن نشین کرنے کی پہلی سیڑھی ہے۔ نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کی بورڈ کے استعمال کے برعکس ہاتھ سے لکھنا سیکھنے اور یاد رکھنے کے عمل کو تیز تر کردیتا ہے۔ لکھنے کے دوران حافظے کی تشکیل اور نئی معلومات کو انگیز کرنے کا عمل فعال ہوجاتا ہے۔
لکھنے کا عمل، لکھی جارہی باتوں یا اسباق کو ذہن میں محفوظ کرنے ہی کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ جب ایک طالب علم لکھتا ہے تو اُس کے ذہن میں نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں ۔ آج کے دور میں جب آئیڈیاز کی بہت اہمیت ہے، یہ عمل نہایت مفید ہے۔ یہ جذباتی صحت کیلئے بھی کارآمد ہے۔ کئی معالج، ذہنی انتشار یا مایوسی کے مریضوں کو ہاتھ سے لکھنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ بعض مغربی تجربوں سے پتہ چلا کہ ہاتھ سے لکھنے والے طلبہ نے کی بورڈ کے ذریعہ لکھنے والے طلبہ کے مقابلے میں بہتر اور زیادہ خیالات کا اظہار کیا۔ ہاتھ سے لکھنے کے دوران ذہن میں کئی تصورات اُبھرتے ہیں ۔ کی بورڈ کا استعمال کرنے یا جو چیز درکار ہے اُس کی فوٹو کھینچ لینے سے ذہن میں خیالات جنم نہیں لیتے یا یہ عمل بہت سست ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان ایسے خیالات سے محروم ہوجاتا ہے جو اُس کے اپنے ہیں ، کسی سے اُدھار لئے ہوئے نہیں ہیں ، کہیں سے چرائے ہوئے نہیں ہیں ۔
طبی مطالعات گواہ ہیں کہ ہاتھ سے لکھنے کے عمل میں دماغ کا ایک خاص حصہ استعمال ہوتا ہے جو کسی بھی غیر متعلقہ معلومات کو حذف (فلٹر) کرتا ہوا چلتا ہے ۔ جب ایک طالب علم کاغذ پر حروف بناتا ہے تو اس کی تمام تر توجہ کاغذ اور تحریر پر ہوتی ہے، نتیجتاً اُس کی تو جہ ہاتھ سے نہ لکھنے والے کے مقابلے میں زیادہ مرکوز رہتی ہے اور دماغ غور کرتا ہوا چلتا ہے کہ اُس نے کیا لکھا۔ مختصر یہ کہ لکھنے یعنی ہاتھ سے لکھنے کے بے شمار فوائد ہیں ، طلبہ کو ان سے محروم نہیں رہنا چاہئے۔