تاریخ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ قوموں ، ملکوں ، صوبوں ، ریاستوں ، برادریوں ، صنعتوں گویا ہر شعبۂ حیات کی تاریخ انسانوں کو اپنے ماضی سے جوڑتی اور مستقبل کی راہیں متعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔
EPAPER
Updated: December 18, 2024, 1:40 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
تاریخ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ قوموں ، ملکوں ، صوبوں ، ریاستوں ، برادریوں ، صنعتوں گویا ہر شعبۂ حیات کی تاریخ انسانوں کو اپنے ماضی سے جوڑتی اور مستقبل کی راہیں متعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔
تاریخ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ قوموں ، ملکوں ، صوبوں ، ریاستوں ، برادریوں ، صنعتوں گویا ہر شعبۂ حیات کی تاریخ انسانوں کو اپنے ماضی سے جوڑتی اور مستقبل کی راہیں متعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہر انسان اپنی، قوم کی اور اپنے ملک کی تاریخ کو سینے سے لگائے رکھنا چاہتا ہے مگر اس ستم ظریفی کو ملاحظہ کیجئے کہ جب تاریخ بن رہی ہوتی ہے تب وہ یا تو غافل رہتا ہے یا اس کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔
اِن دنوں ہماری پارلیمنٹ میں آئین پر بحث و مباحثہ جاری ہے اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک کے عوام کی بڑی تعداد ایسی ہے جو ’’تاریخ کو بنتا ہوا‘‘ نہیں دیکھ رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی اِن تقریروں کی دستاویزی اور تاریخی اہمیت ہے۔ کل انہی تقریروں کے حوالے دیئے جائینگے۔ یا تو اُن کی توثیق کی جائیگی یا اُنہیں ہدف بنایا جائیگا۔ سچ، سچ کہلائے گا اور جو سچ نہیں ہے وقت اُنہیں طشت از بام کردیگا۔ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوگا کیونکہ یہ نظام ِ فطرت ہے۔
یہ بھی پڑھئے : ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اُداس ہیں
تحفظ ِ آئین کی حمایت میں ہونے والی تقریریں اہم اس لئے ہیں کہ آئین اہم ہے۔ اگر کسی ملک کو ایک جسم سمجھ لیا جائے تو مقننہ اور عاملہ اس کا دماغ، ذرائع ابلاغ اس کا ضمیر، عدلیہ اس کا دل اور آئین اس کی روح ہوتی ہے۔ آئین نہ ہو یا پس پشت ڈال دیا جائے یا عملاً اس سے انحراف کیا جائے تو متعلقہ ملک کی مثال بے روح جسم کی ہوگی۔ آئین، کسی بھی ملک کا بنیادی قانون ہوتا ہے جو حکومت کے اختیارات اور تحدیدات (وہ کیا کرسکتی ہے اور کیا نہیں کرسکتی) کے ساتھ ساتھ شہریوں کے حقوق اور فرائض کا تعین کرتا ہے۔ یہ اہم اور بنیادی دستاویز ہی طرز ِ حکمرانی کے رہنما خطوط مرتب کرتی ہے، اختیارات کے بے جا استعمال سے روکتی ہے اور آمریت کے خلاف ڈھال بنتی ہے۔ حکومت اور عوام کے درمیان آئین کے ذریعہ قائم ہونے والا رشتہ ہی مؤثر اور کارآمد رشتہ ہوتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہی دستاویز شہریوں کے حقوق کی ضمانت دیتی اور اُن کی حفاظت کرتی ہے۔ اس سے عوام میں شہریت کا احساس اور شہریت کی شناخت قائم رہتی ہے۔ اسی دستاویز سے جوابدہی کو طے کیا جاسکتا ہے۔ کوئی دستاویز ہی نہ ہو تو حکومتوں سے کس بنیاد پر جواب طلب کیا جائیگا؟ یہی دستاویز سرکاری فیصلوں کا ’’آدھار‘‘ بنتی ہے اور اسی کی وجہ سے ایک مستحکم سماج تشکیل پاتا ہے۔بقول شخصے: ’’آئین کی سب سے بڑی منطق یہ ہے کہ اس کے ذریعہ حکومت کو اختیارات سونپ کر عوام، خود پر حکمرانی کا راستہ ہموار کرتے ہیں تاکہ کوئی بھی فرد یا طبقہ اُن کی آزادی سلب نہ کرسکے اور اُن کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈال سکے۔‘‘ آزادیٔ وطن کے بعد جب ملک کا آئین مرتب کرنے کا فیصلہ کیا گیا تب تشکیل دی گئی کمیٹی میں ایسی شخصیات موجود تھیں جو فرد کی آزادی اور حقوق کے تئیں زبردست کمٹمنٹ کی حامل تھیں ۔ اس کمیٹی نے ۲؍ سال، ۱۱؍ مہینے اور ۱۸؍ دن کی محنت شاقہ کے بعد جو دستاویز بنائی اس کا اولین تقاضا یہ ہے کہ اس کو پڑھا جائے، اس کو سمجھا جائے اور اس کی حفاظت کی جائے۔ تب ہی آئین کی صحیح تشریح ہوگی اور موثر نفاذ ہوگا ورنہ حکومتیں اپنے مفادات کیلئے آئین کو ناکام بناسکتی ہیں ، سابق صدر جمہوریہ کے آر نارائنن نے اسی جانب اشارہ کیا جب انہوں نےکہا تھا (مفہوم) کہ آئین نے ہمیں ناکام نہیں کیا بلکہ ہم آئین کو ناکام کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں ۔