بھارتیہ جنتا پارٹی سے، برسوں سے وابستہ لوگوں کو شکوہ ہے کہ پارٹی ویسی نہیں رہ گئی ہے جیسی واجپئی اور اڈوانی کے دور میں تھی۔ ہم بھی یہی محسوس کرتے ہیں ۔ ہرچند کہ بی جے پی سے نظریاتی اختلاف تب بھی تھا اور اب بھی ہے مگر اُس دور میں پارٹی کی ترجیحات اور طور طریقے الگ تھے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی سے، برسوں سے وابستہ لوگوں کو شکوہ ہے کہ پارٹی ویسی نہیں رہ گئی ہے جیسی واجپئی اور اڈوانی کے دور میں تھی۔ ہم بھی یہی محسوس کرتے ہیں ۔ ہرچند کہ بی جے پی سے نظریاتی اختلاف تب بھی تھا اور اب بھی ہے مگر اُس دور میں پارٹی کی ترجیحات اور طور طریقے الگ تھے۔ کبھی اڈوانی جی کی رائے معلوم کی جائے تو ممکن ہے وہ موجودہ بی جے پی کو بی جے پی ماننے سے انکارکردیں ۔
اس کی وجوہ سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ سرسری اعادہ کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ پارٹی میں صدر برائے نام ہے، جمہوریت بھی برائے نام ہے، مودی اور امیت شاہ پارٹی کے سب کچھ ہیں ، دیگر لیڈروں سے عوام کی کوئی خاص واقفیت نہیں ہے، ۲۰۱۴ء میں پارٹی کی حکومت بنی، ۲۰۱۹ء میں اسے مزید موقع ملا مگر تب سے لے کر اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ کابینی وزراء کے بارے میں عوام کی جانکاری محدود ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کہاں تک درست ہے مگر مرکزی ارباب اقتدار کے ہاؤ بھاؤ سے اِس اطلاع کو تقویت ملتی ہے کہ کوئی بھی وزارت ’’غیر منحصر‘‘ کبھی نہیں رہی ۔ بہ الفاظ دیگر دفتر وزارت عظمیٰ (پی ایم او) کی مرضی کے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ پارٹی کی صفوں میں غیر معمولی اتحاد ہے یعنی کوئی چوں بھی نہیں کرتا مگر اتحاد کی اس خوبصورت تصویر کے پس پشت خوف کی پرچھائیاں ڈولتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ناراض لیڈران اپنی ناراضگی کا اظہار نہیں کرتے، مصلحتاً خاموش رہتے ہیں ۔ کئی لیڈروں کی ناراضگی اس اعتبار سے بجا ہےکہ انہیں موقع تو دیا گیا مگر مقام نہیں دیا گیا (جس کے وہ مستحق تھے) مگر ان کی زبان پر حرف شکایت کبھی نہیں آیا۔ وہ چاہے نتن گڈکری ہوں یا راج ناتھ سنگھ۔ دونوں قد آور اور تجربہ کار سیاستداں ہیں اور دونوں ہی پارٹی کے صدر رہ چکے ہیں بلکہ راج ناتھ سنگھ کا انتخاب دو بار ہوا۔ وزیر اعظم مودی یہ اعزاز نہیں پاسکے مگر اُنہیں یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ پچھلے دس سال میں پارٹی کے صدر (پہلے امیت شاہ اور پھر جے پی نڈا) نے اُن کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کہا۔ ملک میں موجود متبادل میڈیا نے اس موضوع سے کئی مرتبہ بحث کی کہ سیاسی اور معاشی طاقت سے لیس بھارتیہ جنتا پارٹی اس جمہوری ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے مگر اپنی صفوں میں جمہوریت قائم کرنے میں ناکام ہے۔ متبادل میڈیا کبھی کبھار کچھ لیڈروں کی ناراضگی سے بھی بحث کرتا ہے مگر ایس بحثیں تب اپنی قدر کھو دیتی ہیں جب متعلقہ لیڈران خود ہی اپنے ناراض نہ ہونے کا لفظاً یا عملاً اعلان کرتے ہیں ۔
اِن دِنوں خبر گرم ہے کہ ناگپور میں گڈکری کو ہرانے کیلئے مودی، شاہ اور فرنویس نے مل کر کوشش کی۔ یہ سنجے راؤت کا الزام ہے اور شاید الزام ہی رہے کیونکہ گڈکری کبھی اس کی تصدیق نہیں کرینگے بلکہ وقت آیا تو پوری طاقت سے تردید کرینگے۔ ناراض لیڈران ہزار مصلحتوں کے اسیر ہیں ۔ اگر ہم غلطی پر نہیں ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ۲۰۱۴ء کے بعد سے کوئی بڑا لیڈر پارٹی چھوڑ کر نہیں گیا سوائے یشونت سنہا کے جنہوں نے ۲۰۱۸ء میں ’’پارٹی کی حالت‘‘ اور ’’ہندوستان میں جمہوریت کو لاحق خطرہ‘‘ جیسی وجوہات کی بناء پر پارٹی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔
اب جبکہ انڈیا اتحاد کیلئے کافی خوشگوار قیاس آرائیاں ہورہی ہیں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے غیر مطمئن لیڈران تب کچھ کہیں گےجب مودی اور شاہ کی پارٹی الیکشن میں بہت کمزور ہوکر اُبھریگی۔ ہمیں اس پر بھی شبہ ہے۔