• Tue, 07 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

اُمور تعلیم اور حکومتی بے اعتنائی

Updated: January 05, 2025, 2:00 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ملک میں جس طرح جی ایس ٹی کی وصولی کا نظام قائم کیا گیا اور پوری مستعدی کے ساتھ اُسے رو بہ عمل لایا جارہا ہے، ایسی ہی مستعدی اور فعالیت شعبۂ تعلیم کیلئے بھی ضروری تھی مگر جی ایس ٹی کو نافذ ہوئے سات سال ہوچکے ہیں اور نظام تعلیم کی حقیقی خامیاں دور کرنے کی فکر تک نہیں کی گئی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ملک میں   جس طرح جی ایس ٹی کی وصولی کا نظام قائم کیا گیا اور پوری مستعدی کے ساتھ اُسے رو بہ عمل لایا جارہا ہے، ایسی ہی مستعدی اور فعالیت شعبۂ تعلیم کیلئے بھی ضروری تھی مگر جی ایس ٹی کو نافذ ہوئے سات سال ہوچکے ہیں   اور نظام تعلیم کی حقیقی خامیاں   دور کرنے کی فکر تک نہیں   کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں   ارباب اقتدار سے کچھ دریافت کیا جائے تو وہ اپنے جواب میں   نئی تعلیمی پالیسی کا حوالہ دیں   گے اور ایسا کرنے میں   حق بجانب بھی ہوں   گے مگر سچی بات تو یہ ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کتنی کارگر ہے اور اس سے کتنے خوشگوار نتائج کی اُمید ہے اس پر بحث و مباحثہ کو ارباب اقتدار نے ضروری نہیں   سمجھا۔ ریاستوں   سے کہا گیا کہ نافذ کیجئے، ریاست کے تعلیمی محکموں   نے اسے اسکولوں   اور ادارو ں  کی جانب دھکیل دیا کہ اس کے نفاذ کی ذمہ داری آپ کی ہے۔ اس پالیسی پر بات ہوئی بھی تو نفاذ کی شکلوں   سے متعلق ہوئی، پالیسی کی حقیقت اور افادیت پر تو بالکل نہیں   ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایسے ایسوں   کی سمجھ ہی میں   نہیں   آسکا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی سے ملک کے نظام ِ تعلیم میں   کون سی انقلابی تبدیلیاں   رونما ہونے والی ہیں   اور یہ کتنی میعاد بند ہیں  ۔ 
 ہم نے جی ایس ٹی کی مثال اسلئے دی کہ حکومت کی جانب سے ہر ماہ نہایت پابندی کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا کہ کتنا جی ایس ٹی وصول ہوا۔ اس میں   کبھی ٹال مٹول نہیں   کی گئی۔ مرکزی وزیر مالیات نے ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنا فرض اولیں   جان کر ملک کو اطلاع دی کہ سابقہ ماہ میں   کتناجی ایس ٹی جمع ہوا۔ مگر کیا اتنی ہی فکر، فعالیت اور مستعدی کے ساتھ تعلیم کا ڈیٹا جاری کیا جاتا ہے کہ سابقہ ماہ میں   کتنے طلبہ کی تعلیمی حالت کیا رہی؟ کتنے اسکولوں   کا انفراسٹرکچر ٹھیک کیا گیا؟ یا سلسلۂ تعلیم منقطع کرنے والے کتنے طلبہ کو واپس تعلیمی دھارے سے جوڑا گیا؟ کیا کبھی کوئی افسر کسی ایسے ڈیٹا کے بارے میں   بتاتا ہے؟ 
 اگر ہر خاص و عام اس بات سے متفق ہے کہ بتانا تو دور کوئی افسر ایسا سوچتا بھی نہیں   ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار کو انسانی سرمایہ (ہیومن کیپٹل) سے دلچسپی نہیں   ہے، اُس سرمائے سے دلچسپی ہے جو جی ایس ٹی یا دیگر ٹیکسوں   کی شکل میں   قومی خزانے میں   جمع ہوتا ہے۔ ایسا کرتے وقت ہم بھول جاتے ہیں   کہ انسانی سرمائے میں   دلچسپی لینا، اس کی حفاظت کی فکر کرنا، اسے طاقت بخشنا وغیرہ کے ذریعہ ہم مستقبل میں   قومی خزانے میں   جتنا جمع کرنے کے قابل ہوں   گے اُتنا جی ایس ٹی کے ذریعہ جمع نہیں   ہوسکتا کیونکہ ہم نہیں   جانتے کہ نظام تعلیم قابل رشک بنا دینے سے ہمارے کون سے طلبہ کیسی عمدہ اور نمایاں   خدمت انجام دے کر نہ صرف یہ کہ فخرملک و قوم بنیں   گے بلکہ اُن کی خدمات سے حاصل ہونے والی آمدنی ہمیں   کہاں   سے کہاں   پہنچا دے گی۔ پوری دُنیا میں   ہمارا نام ہوگا جو کہ آئی ٹی وغیرہ میں   اب بھی ہورہا ہے مگر تب اس کا مقام و معیار کچھ اور ہوگا۔ 
 جی ایس ٹی کا ڈیٹا جتنی آسانی سے دستیاب ہے، اُتنی آسانی سے ایجوکیشن کا ڈیٹا دستیاب نہیں   ہے۔ کتنے پی ایچ ڈی ہیں  ، کتنے ڈبل گریجویٹ ہیں  ، کتنے پروفیشنل تعلیم کے بعد بیرونی ملکوں   میں   برسر کار ہیں  ، وہ کون سے ادارے ہیں   جہاں   ہمارے طلبہ امتیازی خدمات انجام دے رہے ہیں   وغیرہ وہ سوالات ہیں   جن کا جواب از خود نہیں   ملتا۔ یہ تو سمجھ میں   آتا ہے کہ یہ صورتحال تعلیم کو ترجیح نہ دینے کا نتیجہ ہے مگر یہ نہیں   سمجھ میں   آتا کہ آخراتنی بے اعتنائی کیوں   ہے۔ 

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK