ہمارے معاشرہ میں ایسے والدین کی تعداد ۲۰؍ فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی جو اپنے بچوں کی تعلیم سے خود کو اُتنا وابستہ کرتے ہونگے جتنا وابستگی کا حق ہے اور جو وابستگی کو بامعنی بنائے۔ باقی تمام والدین تعلیمی اخراجات پورے کرنے تک خود کو ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔
EPAPER
Updated: October 06, 2024, 4:11 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ہمارے معاشرہ میں ایسے والدین کی تعداد ۲۰؍ فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی جو اپنے بچوں کی تعلیم سے خود کو اُتنا وابستہ کرتے ہونگے جتنا وابستگی کا حق ہے اور جو وابستگی کو بامعنی بنائے۔ باقی تمام والدین تعلیمی اخراجات پورے کرنے تک خود کو ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔
ہمارے معاشرہ میں ایسے والدین کی تعداد ۲۰؍ فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی جو اپنے بچوں کی تعلیم سے خود کو اُتنا وابستہ کرتے ہونگے جتنا وابستگی کا حق ہے اور جو وابستگی کو بامعنی بنائے۔ باقی تمام والدین تعلیمی اخراجات پورے کرنے تک خود کو ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ ممکن ہے ان میں نصف تعداد ایسے والدین کی ہو جو تعلیمی اُمور میں دلچسپی بھی لیتے ہوں ۔ مگر، دلچسپی لینا اور بچوں کے تعلیمی معمولات کا حصہ بننا دو الگ الگ باتیں ہیں ۔ تعلیمی معمولات کا حصہ بننے سے ہماری مراد ہے والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھنا، تعلیمی اُمور پر بات چیت کیلئے روزانہ وقت دینا، بچوں کی تعلیمی اہلیت اور صلاحیت کو جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کرنا، سوال جواب کرنا، کبھی اُن کی نوٹ بُکس چیک کرنا، اُن کے امتحانات کی بابت معلومات حاصل کرنا، یہ دیکھنا کہ وہ آن لائن کتنا وقت گزار تے ہیں اور جو کچھ بھی موبائل یا انٹرنیٹ پر دیکھتے ہیں وہ کیا ہے، کتنا تعلیمی ہے اور کتنا غیر تعلیمی۔
ایسا کرنے سے بچوں میں از خود فکر پیدا ہوتی ہے جو اُنہیں تعلیمی طور پر منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بچوں کے تعلیمی مستقبل کو اساتذہ کے حوالے کردینا اور خود بے فکر ہوجانا درست نہیں ہے۔ ایسا اس لئے بھی نہیں کرنا چاہئے کہ بچے کی تعلیمی ترقی اور ’’ناترقی‘‘ میں والدین کا فائدہ نقصان یا شہرت و ہزیمت مضمر ہوتی ہے نہ کہ اساتذہ کی جنہیں ہر سال نئے طلبہ کی ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے۔ والدین کا یہ دیکھ کر مطمئن رہنا بھی ٹھیک نہیں کہ بچہ اسکول یا کالج بلاناغہ جارہا ہے اور گھر آکر پڑھتا بھی ہے۔ والدین کو اس سے دو قدم آگے بڑھ کر ضروری فعالیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے جسے ’’پرو ایکٹیو‘‘ ہونا کہتے ہیں ۔ اس سے طلبہ میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے جو اُنہیں ذمہ دار بناتا ہے کہ اُن کے والدین پیسہ ہی خرچ نہیں کرتے، فکر بھی کرتے ہیں ۔ پیسہ خرچ کرکے بے فکر ہوجانے والے والدین کے بچے خود فکرمند رہیں اس بات کا امکان کم کم ہی رہتا ہے کیونکہ دورِ حاضر میں اُن کا ذہن منتشر کرنے والے محرکات بہت ہیں ۔ بہت سے طلبہ گھروں پر پڑھتے نہیں ہیں ، صرف پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ اُنہیں پڑھائی میں مشغول دیکھ کر والدین کو مطمئن نہیں ہوجانا چاہئے۔ ہماری معلومات کے مطابق وہ بچے تعلیمی معاملات میں زیادہ سنجیدہ پائے گئے ہیں جن کی والدہ یا والد تب تک نہیں سوئے جب تک بچے کی، اُس دِن کی پڑھائی مکمل نہیں ہوئی۔ یقین جانئے اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔فکرجیسی فکر کرنے والے والدین کی ایسی مثالیں بھی ہیں کہ بچہ جب اسکول چلا گیا تب والدہ نے قریب کی کسی ٹیچر سے باقاعدہ ٹیوشن لی تاکہ گھر میں بچے کی پڑھائی میں شریک ہوسکے اور سوالات کرکے یہ جان سکے کہ بچہ صحیح جوابات دے رہا ہے یا نہیں ۔ ہم نے اُن والدین کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے بورڈ امتحان کے سال میں اپنے بچے یا بچی کی پڑھائی سے باقاعدہ وابستہ ہونے کیلئے امتحان سے قبل ملازمت سے تین ماہ کی رخصت لے لی تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت بچے کی تعلیمی تیاری پر صرف کریں ۔ مگر یہ غیر قوموں میں ہوتا ہے ہمارے یہاں نہیں ۔ ہماری قوم میں والدین ایسی فعالیت اور بیداری سے کافی دور ہیں ۔ مگر دور رہنے میں اُنہی کی نقصان ہے کسی اور کا نہیں ۔ والدین کی شرکت سے بچے پر خوشگوار نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اُن کی تعلیمی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔