اس بات سے کوئی انکار نہیں کریگا کہ ہمارے معاشرہ میں شادیوں میں غذائی اتلاف بہت زیادہ ہوتا ہے۔مہمان، ضرورت سے زیادہ کھانا لے لیتے ہیں اور پھر کھا نہیں پاتے جس کے استعمال کا کوئی قابل قدر طریقہ نہ تلاش کیا گیا تواُسے تلف کردیا جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: March 16, 2025, 2:20 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اس بات سے کوئی انکار نہیں کریگا کہ ہمارے معاشرہ میں شادیوں میں غذائی اتلاف بہت زیادہ ہوتا ہے۔مہمان، ضرورت سے زیادہ کھانا لے لیتے ہیں اور پھر کھا نہیں پاتے جس کے استعمال کا کوئی قابل قدر طریقہ نہ تلاش کیا گیا تواُسے تلف کردیا جاتا ہے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کریگا کہ ہمارے معاشرہ میں شادیوں میں غذائی اتلاف بہت زیادہ ہوتا ہے۔مہمان، ضرورت سے زیادہ کھانا لے لیتے ہیں اور پھر کھا نہیں پاتے جس کے استعمال کا کوئی قابل قدر طریقہ نہ تلاش کیا گیا تواُسے تلف کردیا جاتا ہے۔ یہی رمضان المبارک میں ، افطار میں بھی ہوتا ہے۔ یہ ماہِ مبارک ہمیں بہت کچھ سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے مگر ہم میں سے اکثر لوگوں پر سوچنے سمجھنے اور غوروفکر کی قوت کے باوجود بے دھیانی کا ایسا غلبہ رہتا ہے کہ بہت سے کام جو کئے جاسکتے ہیں ، وہ بھی نہیں کئے جاتے۔
کچھ لوگ بچی ہوئی غذا کو کسی مستحق کے سپرد کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی مگر وہ نہیں جانتے کہ جسے مستحق سمجھا گیا وہ کتنا مستحق ہے۔ ہمیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ اگر وہ مستحق اور ضرورت مند نہیں ہے تو اُس غذا کا کیا ہوگا جو بڑی ذمہ داری کے ساتھ اس کے سپرد کردی گئی۔ اس پورے عمل میں غذا کے اتلاف کا احتمال رہتا ہے اور آپ ہم گواہ ہیں کہ غذا ضائع ہوکر رہتی ہے۔ اس طرح ہم، احتیاط کے باوجود غذائی اتلاف کی خطا کربیٹھتے ہیں اور پوری دُنیا میں ایک سال کے دوران ضائع ہونے والی غذا ۹۳۱؍ ملین ٹن (یونائیٹیڈ نیشنز انروائرنمینٹل پروگرام کے اندازے کے مطابق) میں حصہ دار بن جاتے ہیں ۔
کئی ملکوں میں فاضل غذا کےاستعمال کیلئے کئی پروجیکٹ جاری کئے گئے ہیں مثلاً جنیوا میں ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو عوامی مقامات پر ریفری جریٹر رکھ دیتی ہے تاکہ جن لوگوں کے پاس زائد غذا ہے وہ اُسے اُن ریفری جریٹرس میں رکھ دیں ۔ مذکورہ غیر سرکاری تنظیم کے رضاکار اُس غذا کو حاصل کرنے کے بعد ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتے ہیں ۔ اس تنظیم کا نام ’’فری گو‘‘ ہے۔ ایسی ہی تنظیمیں سوئزر لینڈ کی راجدھانی برن میں ہیں جہاں کے لوگوں کو جرمنی کی ایسی ہی اسکیم سے استفادہ کرنے کی سوجھی تھی اور اُنہوں نے اُس پر عمل کیا۔ یاد رہنا چاہئے کہ غذا ضائع کرنے کے بجائے اُسے سائنسی طریقوں سے دیگر کاموں میں استعمال کرنے کے بھی طریقے ہیں ، جن پر کسی اور کالم میں گفتگو ہوسکتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسی کوئی تنظیم نہیں ہے، ہو بھی تو خطا معاف کہ ہمیں اس کا علم نہیں ہے، رہا معاشرہ تو اس میں ایسا کوئی انتظام تو یقینی طور پر نہیں ہے۔ روزہ دار کا افطار کرانے کا کتنا ثواب ہے اس سے آگاہی کے بعد ہر وہ شخص جو استطاعت رکھتا ہے، روزہ داروں کا روزہ کھلوانے کی فکر کرتا ہے۔ یہ بہت اچھا جذبہ اور کارِ ثواب ہے مگر اس جذبے کو بروئے کار لاتے وقت یاد رکھنا چاہئے کہ جس جگہ افطار سے متعلق اشیاء دی جارہی ہیں وہاں ان کی کتنی ضرورت ہے۔
ریلوے اسٹیشنوں پر افطار اور سحری کا انتظام کرنے والوں کو بھی اس بات کا خاص دھیان رکھنا چاہئےکہ جس مسافر کو غذائی اشیاء دی جارہی ہیں وہ اُنہیں استعمال کرے گا یا لالچ میں لے لے گا اور چونکہ اس کے پاس کافی مقدار میں اشیائے خوردنی پہلے سے تھیں اس لئے ایسا تو نہیں کہ وہ اپنے اسٹیشن پر اُترنے سے پہلے یا تو اُن اشیاء کو ٹرین ہی میں چھوڑ دے گا یا اُترنے کے بعد کوڑا دان کی نذر کردے گا؟ فی زمانہ ایسے بہت کم فقیر ہیں جو غذا قبول کرتے ہوں ۔ اُن کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ آپ اُنہیں پیسے دے دیں ۔ یہاں بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ضروری ہوگا کہ جسے پیسہ چاہئے اُسے غذائی عطیہ دینے کا کچھ فائدہ بھی ہوگا یا نہیں ۔