گزشتہ پیر کو آئی آئی ٹی کھرگپور کی ایک طالبہ کی خود کشی اُن بے شمار واقعات کی فہرست میں تازہ اضافہ ہے جن میں طلبہ، الگ الگ وجوہات کی بناء پر خود کشی جیسے انتہائی قدم پر مجبور ہوئے۔
EPAPER
Updated: June 19, 2024, 1:23 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
گزشتہ پیر کو آئی آئی ٹی کھرگپور کی ایک طالبہ کی خود کشی اُن بے شمار واقعات کی فہرست میں تازہ اضافہ ہے جن میں طلبہ، الگ الگ وجوہات کی بناء پر خود کشی جیسے انتہائی قدم پر مجبور ہوئے۔
گزشتہ پیر کو آئی آئی ٹی کھرگپور کی ایک طالبہ کی خود کشی اُن بے شمار واقعات کی فہرست میں تازہ اضافہ ہے جن میں طلبہ، الگ الگ وجوہات کی بناء پر خود کشی جیسے انتہائی قدم پر مجبور ہوئے۔ کبھی تو پڑھائی کا دباؤ اُن کیلئے ناقابل برداشت ہوا اور کبھی تعلیم گاہ یا رہائش گاہ کے آس پاس کے ماحول نے اُن کے حوصلے کا امتحان لیا اور وہ اُتنا حوصلہ نہیں پیدا کرسکے۔ کبھی اُنہیں جنسی اور جسمانی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا اور کبھی سیاسی وجوہات تعلیمی خوابوں پر اثر انداز ہوئی۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعدادوشمار کے مطابق پورے ملک میں مجموعی طور پر ۲۰۲۲ء میں ۱۳۰۴۴؍ طلبہ نے، اس سے قبل ۲۰۲۱ء میں ۱۳۰۸۹؍ طلبہ نے اور اس سے بھی پہلے ۲۰۲۰ء میں ۱۲۵۲۶؍ طلبہ نے خود کشی کا راستہ اختیار کیا۔ اس نوع کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر بہت سے تعلیمی اداروں میں کاؤنسلنگ مرکز قائم کیا گیا ہے مگر اس کا فائدہ تبھی ہوسکتا ہے جب طالب علم اس مرکز سے رجوع کرے۔ سینئر طلبہ کے ذریعہ ستائے جانے (ریگنگ) سے بھی طلبہ خود کو بے یارومددگار سمجھتے ہیں اور خود کشی میں راہِ فرار تلاش کرلیتے ہیں ۔ وجوہات چاہے جو ہوں ، اتنی بڑی تعداد میں طلبہ کا انتہائی قدم اُٹھانا اہل اقتدار، حزب اختلاف، تمام سیاسی جماعتوں ، تمام سماجی اداروں اور ملک کے ہر خاص و عام شہری کیلئے تشویش کا باعث ہونا چاہئے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ سب کے سب بے حسی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں مگر یہ ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ ’’مستقبل کے معمار‘‘ خود کو اتنا کمزور سمجھنے لگیں تو ملک کے طاقتور بننے کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہوگا۔
اوائل ِ سال میں ، کوچنگ کی راجدھانی کہلانے والے کوٹہ (راجستھان) میں ، صرف دو ماہ میں ۶؍ طلبہ اور اس سے قبل کے سال میں ۲۶؍ طلبہ کی خود کشی نے پورے ملک کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔ تب یہ شہر (کوٹہ) اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی سرخیوں میں تھا۔ بے شمار خبریں نشر ہوئیں اور بہت سی بحثوں کا یہی موضوع تھا مگر نہ تو ’’کوچنگ‘‘ کی صنعت کی چمک ماند پڑی نہ ہی والدین میں یہ شعور جاگا کہ اپنے بچوں کو اس ’’جنونی دوڑ‘‘ سے دور رکھیں ۔ کوئی یہ سمجھنے کو تیار نہیں ہے کہ تعلیم کا مقصد طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو اُبھارنا ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اُنہیں ا پنی پسند کا کریئر منتخب کرنے کی ترغیب دیں اور اُن پر مخصوص کریئر آپشنز کیلئے دباؤ نہ ڈالیں ، اگر وہ خود بیرونی محرکات کو قبول کررہے ہوں تو اُنہیں سمجھائیں ، اُنہیں روکیں ۔ مگر، سماج میں یہ سب نہیں ہورہا ہے۔ خود کشی کے واقعات پر اظہارِ افسوس تو کیا جاتا ہے مگر طلبہ کو منفی جذبات سے اس طرح بچانے کیلئے کوئی میکانزم نہیں بنایا جاتا کہ اُن میں وہ جذبات پیدا ہی نہ ہوں ۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں میں پورا تعلیمی نظام گویا ’’طالب علم مخالف‘‘ ہوگیا ہے۔
اسی نظام میں وہ مافیا پرورش پا رہا ہے جو ’’نیٹ‘‘ کے نتائج میں ہونے والی دھاندلی اور بے ضابطگی بلکہ طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کا ذمہ دار ہے۔ مگر، آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ سوائے عدالت کے، کوئی بھی اس معاملے میں سنجیدہ اور مخلص دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ بے روزگاری کی مار سہنے والے نوجوان تو پریشان ہیں ہی، وہ بھی پُرسکون نہیں ہیں جو ابھی جاب مارکیٹ کی طرف نہیں بڑھے۔ اپنے نوجوانوں کو ناکردہ گناہی کی سزا سے بچانے کیلئے ایسی تحریک ضروری معلوم ہوتی ہے جو سماجی بیداری کے ذریعہ نظام تعلیم میں انقلاب لانے کیلئے وقف ہو۔