ٹرمپ نے اپنی تاجپوشی اور حلف برداری کیلئے غزہ کی جنگ رکوانے پر اصرار کیا تھا۔ جنگ روکی گئی مگر شاید اس یقین دہانی کے بعد روکی گئی تھی کہ عنان حکومت قاعدے سے سنبھال لینے کے بعد ٹرمپ وہی کریں گے جو اسرائیل چاہے گا
EPAPER
Updated: February 24, 2025, 1:51 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ٹرمپ نے اپنی تاجپوشی اور حلف برداری کیلئے غزہ کی جنگ رکوانے پر اصرار کیا تھا۔ جنگ روکی گئی مگر شاید اس یقین دہانی کے بعد روکی گئی تھی کہ عنان حکومت قاعدے سے سنبھال لینے کے بعد ٹرمپ وہی کریں گے جو اسرائیل چاہے گا
ٹرمپ نے اپنی تاجپوشی اور حلف برداری کیلئے غزہ کی جنگ رکوانے پر اصرار کیا تھا۔ جنگ روکی گئی مگر شاید اس یقین دہانی کے بعد روکی گئی تھی کہ عنان حکومت قاعدے سے سنبھال لینے کے بعد ٹرمپ وہی کریں گے جو اسرائیل چاہے گا۔ اگر ہمارا شک درست ہے تو یقین دہانی پوری ہورہی ہے۔ اسرائیل جو چاہتا تھا وہی ہورہا ہے، بلکہ جو ہورہا ہے وہ اس کی توقع سے زیادہ ہے اور اس پر ٹرمپ کا ٹریڈ مارک صاف دکھائی دیتا ہے۔ غزہ ہی نہیں ، امریکہ کے ہر فیصلے پر ٹرمپ کا ٹریڈ مارک ہے جس سے کئی ممالک پریشان ہیں ۔ کوئی کہہ پا رہا ہے کوئی خاموش ہے مگر شاید ہی کوئی ہو جو دل سے برا نہ کہہ رہا ہو۔ ہمارا احساس ہے کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو جو برا بھلا کہا تھا، چند رپورٹوں میں تو یہ تک لکھا تھا کہ ٹرمپ نے مغلظات سے بھی دریغ نہیں کیا مگر وہ ڈراما تھا، دکھاوا تھا۔
ممکن ہے ٹرمپ نے کہا ہو کہ ایک بار مجھے فارم میں آنے دو، تمہیں غزہ خالی کروا کے دونگا، یہ بار بار کی چھوٹی چھوٹی جنگوں کے بجائے پورا علاقہ بغیر جنگ تمہاری جھولی میں ڈال دونگا۔ کیا اسی لئے ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں اہل غزہ کو متنبہ کیا ہے اور اسرائیل نے گزشتہ دنوں پرچیاں گرائی ہیں ؟
ہمیں شبہ ہے کہ پلان تو یہی ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے اور ٹرمپ اور نیتن یاہو اپنے مشن میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ یہ بات محض جذباتی بنیادوں پر نہیں کہی جارہی ہے۔ توازن، فطرت کا اصول ہے، دنیا کبھی بھی ایک طرف اس حد تک نہیں جھک سکتی کہ لڑھک جائے۔ اس میں توازن از خود پیدا ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ظلم جب حد سے سوا ہوتا ہے تو اس کے تدارک کے اسباب از خود پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ یہی دیکھئے کہ کیا دنیا یک قطبی ہوسکتی ہے؟ کیا کوئی ’’نیا ورلڈ آرڈر‘‘ دنیا کے مسائل حل کرسکا ہے؟ جب بھی دنیا ایک طرف جھکنے لگتی ہے، نئی مساوات بننے لگتی ہے اور توازن نئے سرے سے پیدا ہونے لگتا ہے۔ غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ کے خلاف دنیا بھر میں جو مظاہرے ہوئے وہ یقیناً عوام اور ان کی تنظیموں یا (امریکہ کے) طلبہ اور ان کی تنظیموں نے کئے اور ضروری نہیں کہ انکی حکومتیں اُن کے مطالبات کو تسلیم کرلیں مگر اس کی وجہ سے ایک ماحول تو بنتا ہے جو توازن کواز سرنو درست کرنے کی جانب پہلا قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح آپ دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح جنوبی افریقہ نے اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ عالمی عدالت کون گیا؟ مانا کہ یہ اقدامات بہت کم ہیں اور غزہ پر توڑے گئے مظالم کے پہاڑوں کے سامنے ان کی حیثیت اتنی نہیں کہ فی الفور ان کی وجہ سے جنگ رُک جائے مگر فرق تو پڑتا ہے۔ خلیجی ملکوں کو دیکھئے، انکی جانب سے کوئی بڑی مزاحمت گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران نہیں ہوئی مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آئندہ بھی نہیں ہوگی۔ جب حالات بدلنے شروع ہوں گے تو بدلتے جائینگے۔ ٹرمپ نے خود کو صرف امریکہ کا نہیں پوری دُنیا کا سربراہ سمجھ لیا ہے۔ وہ کتنے دن ایسا سمجھتے رہیں گے؟ چند روز،چند ہفتے،چند ماہ یا چند سال۔ اس کے بعد؟ قدرت کے اُصولِ توازن سے چھیڑ چھاڑ کوئی نہیں کرسکتا۔ قدرت کی جانب سے ڈھیل ملتی ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر رسی کبھی اتنی لمبی نہیں کی جاتی کہ زمینی خدا خود کوحقیقی خدا سمجھنے لگیں ۔ آج اہل غزہ کے ساتھ کوئی نہیں ہے مگر یہ ممکن ہے کہ کل ان کے ساتھ پوری دُنیا ہو اور ٹرمپ جیسےآکے اہل غزہ کی مزاج پرسی کریں !