• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

جنریشن بیٹا

Updated: January 09, 2025, 9:10 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جنریشن بیٹا۔ کاش یہ بیٹا (فرزند) ہوتا کیونکہ یہ اصطلاح ۲۰۲۵ء سے ۲۰۳۹ء تک کی نسل کا احاطہ کرتی ہے جس کی آمد ابھی ابھی شروع ہوئی ہے مگر یہ بیٹا بمعنی فرزند نہیں بلکہ بیٖٹا ہے جس میں ’’ی‘‘ (یائے معروف) کو کھینچ کر پڑھا جائیگا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 جنریشن بیٹا۔ کاش یہ بیٹا (فرزند) ہوتا کیونکہ یہ اصطلاح ۲۰۲۵ء سے ۲۰۳۹ء تک کی نسل کا احاطہ کرتی ہے جس کی آمد ابھی ابھی شروع ہوئی ہے مگر یہ بیٹا بمعنی فرزند نہیں  بلکہ بیٖٹا  ہے جس میں  ’’ی‘‘ (یائے معروف) کو کھینچ کر پڑھا جائیگا۔ اس نسل کی آمد ایسے وقت میں  شروع ہوئی ہے جب دُنیا کی آبادی ۸؍ ارب سے تجاوز کرچکی ہے اور وہ تمام لوگ جو سوچنے سمجھنے والا ذہن رکھتے ہیں  اس بات پر غور کررہے ہیں  کہ ۸؍ ارب سے زیادہ کی آبادی فائدہ مند ہے یا نقصان دہ۔ اس سے قبل دُنیا میں  دو متضاد رجحان دیکھے گئے جو آج بھی قائم ہیں ۔ ایک رجحان آبادی بڑھانے کا ہے، دوسرا گھٹانے کا۔ کئی ممالک آبادی کم کرنے کے درپے ہیں  اور کئی دیگر بڑھانا چاہتے ہیں ۔ ہمارا کہنا ہے کہ آبادی فائدہ مند ہی ہوتی ہے نقصان دہ نہیں  ہوتی ۔ یہ بات خاص طور پر حکمراں  طبقہ کو سمجھنی چاہئے جو کثرت ِ آبادی کے کارآمد اور پیداواری پہلوؤں  پر غور نہیں  کرنا چاہتا۔ جہاں  تک جنریشن بیٹا کا تعلق ہے اس کی آمد ایسی دُنیا میں  ہورہی ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے برپا ہونے والے انقلاب کا مشاہدہ کررہی ہے، جس میں  خود کار مشینوں  (آٹومیشن) کا زور رہے گا، پائیداریت (Sustainability) پر خاصی توانائی صرف کی جارہی ہے، ٹیکنالوجی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، عالمی شہریت (گلوبل سٹیزن شپ) کا موضوع زیر بحث ہے اور سماجی قدریں  تیزی سے بدل رہی ہیں  جس کا آغاز اس سے پہلے کی جنریشن دیکھ چکی ہے اور اب بھی دیکھ رہی ہے۔ ہم، پیش گوئیوں  پر یقین نہیں  رکھتے مگر ذہین لوگوں  کے اندازوں  کو مسترد نہیں  کرتے چنانچہ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں  کہ اب سے ۱۰۰؍ سال پہلے (۱۹۲۵ء کے آس پاس) کے دانشوروں  نے اِس نسل (۲۰۲۵ء کے آس پاس) کے بارے میں  کیا کہا تھا۔ 
 ۱۹۰۲ء میں  شعبۂ ادویات میں  نوبیل انعام حاصل کرنے والے ڈاکٹر رونالڈ رَوس (Ross) نے کہا تھا کہ اس دَور میں  جو نسلیں آئینگی وہ سابقہ نسلوں  کے مقابلے میں  طویل عمر پائینگی کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیش رفتوں  کے سبب بیماریوں  کی تشخیص اور علاج معالجہ کی سہولت بہتر ہوجائیگی اور زندگی بچانا اتنا مشکل نہیں  رہے گا جتنا کہ پہلے تھا۔ ڈاکٹر رَوس نے یہ بھی کہا تھا کہ ممکن ہے اس دَور کی نسلوں  میں  ایسے لوگ بھی ہوں  جو ۱۵۰؍ سال کی عمر پائیں ۔ 
 ’’دی ٹائم مشین‘‘ جیسی کتاب تصنیف کرنے والے شہرہ آفاق ادیب ایچ جی ویلز نے اپنے دور سے ۱۰۰؍ سال بعد (یعنی موجودہ دور) کیلئے کہا تھا کہ صرف وہی ممالک اپنی بقاء کو یقینی بناسکیں  گے جو سپرپاور ہوں  گے۔ اس سلسلے میں  انہوں  نے امریکہ، چین اور یورپ کی مثال دی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ایچ جی ویلز نے یہ بات لندن کے ہوٹل سیسل میں  ایک عشائیے کے دوران کہی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں  کہ دیگر ممالک اپنی بقاء کی جدوجہد میں  ناکام ہونگے! اس کامطلب یہ ہے کہ علمی، سماجی، معاشی اور سائنسی اُمور میں  بالادستی مذکورہ ملکوں  ہی کو حاصل رہے گی اور وہ ایک طرح سے پوری دُنیا کو کنٹرول کررہے ہونگے۔
 ڈاکٹر رَوس کا اندازہ اسلئے غلط نہیں  تھا کہ انسانی عمر کا دورانیہ بڑھ چکا ہے جو سائنسی حقائق سے ثابت ہے۔ آج  قلب یا دیگر اعضاء کی پیوند کاری مشکل نہیں  رہ گئی ہے۔ اسی طرح ایچ جی ویلز نے جو کہا تھا وہ اس طرح درست ثابت ہورہا ہے کہ چند ہی ملکوں  کا تسلط دُنیا کے نقشے پر عیاں  ہے۔

جنریشن بیٹا کے بارے میں ڈاکٹر رونالڈ روس اور ایچ جی ویلز ہی نہیں، اور بھی کئی دانشوروں نے اَب سے کم و بیش ۱۰۰؍ سال پہلے اپنے اندازے ظاہر کئے تھے جو اُن کی دانشورانہ بصیرت اور دور بینی کے مظہر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ ۱۰۰؍ سال بعد دُنیا اس قدر بدل جائیگی کہ پہچانی نہیں جائیگی۔ اطلاعاتی تکنالوجی کے ذریعہ جو انقلاب آیا اُن لوگوں نے اُس کی آہٹ ہی سنی ہوگی، اس انقلاب کو برپا ہوتے نہیں دیکھا ہوگا مگر اُن کا اندازہ تھا جس میں کافی کچھ صحیح ثابت ہورہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ کچھ ایسا بھی ہے جو درست ثابت نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر پروفیسر لوویل ریڈ (جان ہاپکنس یونیورسٹی سے وابستہ) نے لکھا تھا کہ ۱۰۰؍ سال بعد یعنی ۲۰۲۵ء میں امریکی آبادی ۲۰۰؍ ملین پہنچ جائیگی جو ۱۹۲۵ء میں ۱۱۵؍ ملین تھی۔ اس اضافے کی وجہ سے امریکہ کو غذائی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے نئی تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی۔ یہ خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ ۲۰۲۵ء میں امریکی آبادی ۲۰۰؍ ملین (۲۰؍ کروڑ) نہیں بلکہ اس سے کافی زیادہ (۳۴؍ کروڑ) ہوگئی اس کے باوجود امریکہ کو غذائی قلت کا سامنا نہیں ہے۔ 
 آئرلینڈ کے ماہر طبعیات و کیمیا ای ای فورنیئر نے کہا تھا کہ ۲۰۲۵ء تک عالمی حکومت کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ۱۹۲۵ء میں شائع ہونے والی اپنی جس تصنیف (مستقبل کی جھلکیاں ) میں اُنہوں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا اُس میں کہا گیا تھا کہ کرۂ ارض پر صرف ایک حکومت ہوگی اور صرف ایک زبان کا تسلط ہوگا۔ کئی نسلیں اور کئی ممالک تو ہوں گے مگر ان میں آمدورفت اور تجارت بے روک ٹوک جاری رہے گی۔ یہ خیال اس اعتبار سے جزوی طور پر درست کہا جاسکتا ہے کہ کرۂ ارض پر ایک زبان کے تسلط کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے اور یہ کوشش تکنالوجی کی وجہ سے کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے، رہا پوری دُنیا میں ایک حکومت کا سوال تو اس کا کوئی اتہ پتہ اب تک نہیں ہے۔ عملاً یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ ۲۰۲۵ء میں اس کے برعکس دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہر ملک صرف اپنے مفادات پر نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہے جن میں تجارتی مفادات کو اولین ترجیح دی جارہی ہے۔ 
لوتھیرن تھیولوجیکل سمینری، گٹس برگ، پینی سلوانیہ سے وابستہ ڈاکٹر اے آر وینٹز نے کہا تھا کہ ۲۰۲۵ء تک سوڈیم فاسفیٹ کو نیند کے متبادل کے طور پر متعارف کرایا جائیگا اور ماحول سے نائٹروجن کشید کرکے سنتھیٹک فوڈ (کیمیاوی طریقہ سے تیار کی گئی مصنوعی غذا) منظر عام پر ہوگی۔ ڈاکٹر وینٹز کا اندازہ بھی جزوی طور پر درست ثابت ہورہا ہے۔ ہم سائنسی پیش رفتوں کے جانکار نہیں ہیں اس لئے سوڈیم فاسفیٹ کو نیند کے متبادل کے طور پر متعارف کیا جاچکا ہے تو اس کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے (علم ہے تو اس ٹھوس حقیقت کا کہ نیند فطری عمل ہے جس کا متبادل ہوہی نہیں سکتا) مگر جہاں تک مصنوعی غذا کا تعلق ہے، بہت سے لوگ نہیں جانتے مگر پوری دُنیا میں موجود ہیں حتیٰ کہ ہندوستانی بازار میں بھی۔ اس کی مثالیں سویا بین، سن فلاور سیڈ، سیسم، آئل کیک وغیرہ ہیں۔ 
اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ جنریشن بیٹا (۲۰۲۵ء کے پہلے دن سے (۲۰۳۹ء تک پیدا ہونے والی نسل) ایک ایسی دُنیا میں قدم رنجہ ہے جو ماضی قدیم اور ماضی بعید کی دُنیا سے غیر معمولی طور پر مختلف ہے۔ یہ نسل، پیش رَو نسلوں کی سرپرستی میں دُنیا کو جتنی اچھی طرح سمجھے گی اُتنا اس کے حق میں مفید ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK